Sunday 6 November 2016

کپتان کا کیا قصور ہے

آج کل میڈیا پر بھانت بھانت کی بولیاں بولی جارہی ہیں ہر کوئی اسلام آباد لاک ڈاؤن ناکام ہونے کا ذمہ دار عمران خان کو قرار دے رہا ہے حالانکہ کپتان نے بڑا کلئیرلی یہ اعلان کر رکھا تھا چاہے آسمان ٹوٹ پڑے وہ ڈی ڈے سے پہلے اپنے گھر سے نہیں نکلے گا ویسے بھی یہ سب تو عوام کی غلطی ہے کہ وہ اسلام آباد پہنچنے میں ناکام ہوئے یہ کہاں کا انصاف ہے کہ دو تین سو بندہ بنی گالا پہنچ سکا پرویز خٹک بھی اپنے قافلے سمیت موٹر وے پر پھنس گیا کپتان تو بنی گالا بیٹھا دس لاکھ لوگوں کا انتظار کرتا رہا سب کہہ رہے کہ کپتان کو بنی گالا سے نکلنا چائیے تھا بھائی جب دس لاکھ بندہ نہیں پہنچے گا تو انقلاب کیسے آئے گا؟ اس میں کپتان کی کیا غلطی؟ کیا وہ دو تین سو بندوں کے ساتھ نکلتا اور سارا انقلاب ٹھپ کروا دیتا؟ جبکہ کپتان نے کلئیرلی کہا تھا کہ وہ ڈی ڈے والے دن دھوم دھڑکے سے نکلے گا اب کپتان کو لاک ڈاؤن کے فلاپ ہونے کا ذمہ دار قرار دینا زیادتی ہے

میڈیا پر فال والے طوطے، کرسٹل بال اور نجومیوں کو لئے مہنگے ملبوسات میں بیٹھے اینکر کپتان سے عجیب و غریب سوالات کی بوچھاڑ کررہے کہ آپ کیوں گھر سے نا نکلے؟ آپ کیوں بنی گالا میں چھپے بیٹھے رہے؟ حالانکہ ساری غلطی ان اینکروں کی ہے جو ہمیشہ کپتان کو ورغلاتے ہیں کہ وہ دھرنے دے شہر بند کردے جلسے جلوس نکالے ورنہ سادہ کپتان تو بڑا زیرک سیاستدان ہے وہ ایسی بساط بچھاتا ہے کہ دشمن چاروں شانے چت ہوجاتا کپتان نے تو شروع سے ہی یہ پلان کیا ہوا تھا کہ اگر لاک ڈاؤن فیل ہوگیا تو سپریم کورٹ سے تلاشی ہوگی کیا فرق پڑتا ہے اگر نواز شریف نے چھ ماہ پہلے ہی اس کا اعلان کردیا آخر میں جیت تو میرے کپتان کی ہوئی

اب حکومت کو ہی دیکھ لیں کپتان تو صرف دارالحکومت بند کرنے آ رہا تھا کیا فرق پڑنا تھا اگر دو چار مہینے ملک بند ہوجاتا دو چار بڑی بڑی سرکاری عمارتوں پر قبضہ ہوجاتا لیکن ڈکٹیٹر نوازشریف نے اداروں کے ذریعے معصوم پی ٹی آئی کے کارکنوں پر لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی شیلنگ کروا دی کپتان کو بنی گالا میں قید کردیا پنجاب میں ظلم و بربریت کا بازار گرم کردیا تمام کارکنوں کو گرفتار کرنا شروع کردیا وہ بچارے اسلام آباد لاک ڈاؤن کرنے نا پہنچ سکے باقی جو بچ گئے وہ سوشل میڈیا پر بیٹھے جہاد میں مصروف رہے اب آپ لوگ خود فیصلہ کریں اس میں کپتان کا کیا قصور ہے؟

اب کیس سپریم کورٹ میں چل پڑا ہے سیدھا سیدھا کیس ہے سپریم کورٹ کو چائیے کہ نوازشریف کو نااہل کرے اور کپتان کو وزیراعظم اناوئنس کرے لیکن اب کہا جارہا ہے کہ ثبوت لے کر آو بھائی انقلاب لانے والے صرف الزام لگاتے ہیں ثبوت ڈھونڈنا حکومت وقت کا کام ہوتا ہے تاکہ سپریم کورٹ ان کو جلدی جلدی نااہل قرار دے سکے ظلم تو یہ ہے کہ اب نوازشریف فرگوسن جیسے بڑے ادارے کی رپورٹیں پیش کررہا کہ اس کے گوشواروں میں کوئی جھول نہیں انہوں نے یہ فلیٹ دوبئی اسٹیل مل بیچ کر 80 کی دہائی میں خریدے کپتان بچارا قوم کے لئے لاک ڈاؤن کررہا تھا یہ شریفین اپنے کیس کی تیاری کررہے تھے یہ زیادتی نہیں تو کیا ہے؟ اس میں عمران خان کا کیا قصور ہے؟

اب تو عظیم انویسٹیگیو جرنلسٹ نے بھی یہ کہہ دیا کہ 99•9 % حکومتی کاغذات بوگس ہوتے پھر بھی کوئی ماننے کو تیار نہیں؟ آخر اس میں کپتان کا کیا قصور ہے اگر ان خبروں کا ذریعہ سوشل میڈیا پر بیٹھے کچھ لڑکے ہیں جو اس عظیم انویسٹیگیو جرنلسٹ کو بےوقوف بناتے من گھڑت خبریں اسے فیڈ کرتے وہ انہیں سچ مان کر سوشل میڈیا پر پھیلا دیتا کپتان بچارا اب کہاں جائے اگر اسے سارے بےوقوف ہی ٹکرتے ہیں طوطوں، نجومیوں اور کرسٹل بال کے ساتھ بیٹھے اینکر کپتان کو الٹے سیدھے خواب دکھاتے جب منصوبے فیل ہوجاتے تو کپتان پر الزام دھر دیتے اس میں کپتان کا تو کوئی قصور نا ہوا

اس میڈیا کو ہی دیکھ لیں جو پہلے ریٹنگ کے لئے کپتان کا استعمال کرتا لیکن ویگن پر سگار پیتے شیخ رشید کو ہیرو بنا دیتا جبکہ کپتان بنی گالا میں بیٹھا ملک و قوم کے لئے عظیم قربانی دے رہا ہوتا ڈی ڈے کی تیاری کررہا ہوتا من گھڑت باتیں کی جارہی کیونکہ بندے اکٹھے نہیں ہوسکے پرویز خٹک کا اسلام آباد پہنچنا بھی مشکل تھا اسلئے اپنی عزت بچائی گئی بقول کپتان اس نے بنی گالا میں چھپ کر بہت تیاری کی تھی وہ کوئی شیخ صاحب کی طرح بےوقوف نہیں کہ جان ریمبو بنا پنڈی کی سڑکوں پر گھومتا رہتا حکومت اسے گرفتار کرکے اٹک جیل پھینک دیتی ساری موومنٹ ٹھپ ہوجاتی کپتان نے جب نکلنا تھا تو بنی گالا کے باہر دیگوں پر بیٹھے دو تین سو بندے نے دس لاکھ کا مجمع بن جانا تھا کیونکہ کپتان نے ساری حکمت عملی بنا لی تھی یہ تو حکومت کی خوش بختی ہے کہ وہ بچ گئی

اب حکومت سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کررہی ہے کہ جہانگیر ترین، عمران خان، علیم خان سے بھی آفشور کمپنیوں کا حساب لیا جائے اب سپریم کورٹ بیان داخل کرانے کا کہہ رہی ہے یہ سب ہتھکنڈے انقلاب کا راستہ نہیں روک پائیں گا کیونکہ کپتان نے ساری تیاری کرلی ہے اب نوازشریف کو دنیا کی کوئی طاقت نہیں بچا سکتی ویسے بھی شیخ رشید کپتان کے ساتھ ہے اگر اس دفعہ نوازشریف بچ بھی گیا تو نئی تاریخ دے دے گا لیکن میرے کپتان کا کوئی قصور نہیں ہوگا یہ سب اداروں کا قصور ہوگا اگر نوازشریف ملکی تاریخ کا صاف ستھرا وزیراعظم بن کر ابھرتا ہے

Tuesday 27 September 2016

Tall Claims False Hope

                 

                                   TALL CLAIMS FALSE HOPE                          

Imran Khan once an inspiration for millions of youth across Pakistan, got 7.5 million votes in GE 2013, his party emerged as the second most popular party in Pakistan in GE 2013, formed Government in KPK while emerged strong opposition party in Punjab, Sindh  and Federation. All Imran had to do was to perform in KPK, Act as a strong Opposition Leader and Wait for 2018. You might be thinking if all that was simple then why on earth Imran took a road to destruction? that's a million dollar question every Pakistani especially hard Core PTI base must be asking  themselves, even if they don't accept publicly they tell you in Private meetings, how it all went downhill from 2013 GE glory, how their Captain has sunk his ship in the middle of nowhere, even now not listening to anyone, hell bend to drown all on board rather use a life boat and save as many life's as possible, minimize the damage and prepare for another battle in 2018. 


For a leader, the most precious thing is his political capital which he tries to build over the years for bigger battles which in case of politicians is elections and in case of sitting Government to win confidence of people to win another term. 

IK gearing up for yet another Dharna at Sharif's House Jati Umra, Tall claims of popularity, false hopes of invincibility, Naya Pakistan, most Popular Leader slogan coined yet again to his support base, promise of million gathering at Raiwand and conquering  Sharif's Power?. As I said earlier for a political leader the most important and sacred thing, is his political capital which unfortunately for IK has already shrunk to unthinkable levels. 

No idea, how IK  gauges his popularity, idiots like me gauge it by mass appeal, by-Elections, local body elections, size of Jalsas to some extent, support base at family gatherings, local political gatherings, Parliamentary weight and Support of opposition parties etc. etc. As far as mass appeal is concerned we have seen dramatic decrease in number of participants in IK Rallies from Islamabad to Lahore to Karachi, failed to gather even few thousands people, in fact according to neutral pundits all failed miserably. If you go through by-Elections post dharna, PTI Lost majority of them. Mianwali, Peshawar, Lahore, Sahiwal, Toba Tekh Singh, Vehari, Jehlam, Waziarabad, Taxila, Jhal Magsi, Haripur, Karachi and the list goes on and is compounded  further by the lose of Local Bodies election even in KPK where PTI is ruling lost majority districts to opposition, failed Kashmir test with shining colors. As far as opposition parties are concerned, no one wants to accompany IK on this suicidal mission especially with declining IK popularity and looming Indian threat. IK PTI had to beg "Off-Shore tainted politicians" to accompany him for Raiwand March still no one ready to join him. PTI supporters are on back-foot during private meetings and gatherings, face tough questions and embarrassing taunts. 

With such glowing record, no politician even dare to launch another protest movement even if he remotely thinks of launching one, the recent events would've discouraged him where Pakistan is having tension with India, latter threatening to revoke Indus Water Treaty which is more deadly than a Nuclear War, while Nawaz Sharif enjoying massive public support and dominating opinion polls, you have to be out of your mind or suffering from serious ego issues or Anti-Democracy to lodge such a protest? The only beneficiary of these protests is either Nawaz Sharif or Anti-Democratic forces, no way on earth IK can benefit from these protests. 

With PPP already in shambles, it was golden opportunity for IK to fill the vacuum and give Sharif's run for their money, unfortunately IK has lost his political weight and soon his political relevance will be no more if he continued this of path of destruction. The vacuum is filled by mighty establishment which is not good for democracy, as it seems the fight is not between political forces as Nawaz Sharif  is becoming invincible in political arena, the gap left, is filled by Thank You Brigade! 




Sunday 28 February 2016

فرخ سلیم کا اورینج لائن بلنڈر

ڈاکٹر فرخ سلیم کا دی نیوز میں اورینج لائن پر چھپا آرٹیکل پڑھنے کا اتفاق ہوا ڈاکٹر صاحب نے اورینج لائن سے متعلق ایسے ہولناک انکشافات کئے کہ دل دہل گیا آگے بڑھنے سے پہلے وہ لوگ جو ڈاکٹر فرخ سلیم صاحب کو نہیں جانتے ان کے لئے ڈاکٹر صاحب کا تعارف کرانا بہت ضروری ہے ڈاکٹر صاحب اس سے پہلے میٹرو اسلام آباد/راولپنڈی کے بارے میں بھی انکشافات کرچکے ہیں میٹرو کو دنیا کا مہنگا ترین پراجیکٹ قرار دیا تھا انتہائی صفائی کے ساتھ میٹرو کے 11 کلومیٹر overhead bridge اور underground حصے کا ذکر گول کردیا یہ وہی عظیم ہستی ہیں جنہوں نے LNG کی ڈیل سائن ہونے سے پہلے ہی اسے دنیا کی مہنگی ترین LNG کا درجہ دیا اور سینکڑوں ارب کی کرپشن کا انکشاف کئے ڈاکٹر صاحب کے ایسے کئی روح کو گرما دینے والی تحاریر موجود ہیں

ڈاکٹر صاحب نے اپنی تازہ تحریر میں تو کمال ہی کردی ہے کہ میرا جیسا بندہ بھی مجبور ہوگیا کہ یار اب بہت ہوگئی اب ڈاکٹر صاحب کی تعریف کرنا ضروری ہوگیا ہے ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ 162 ارب روپے کی میٹرو کو ڈھائی لاکھ لوگوں کے لئے بنایا گیا ہے مطلب ایک بندے پر تقریبا 645000 روپے لگائے جارہے مطلب اتنے پیسوں کا ضیاع اتنی تھوڑی عوام کے لئے کرنا انتہائی ظلم ہے ڈاکٹر صاحب نے انتہائی معصومیت کے ساتھ یہ assume کرلیا کہ شہباز شریف ڈھائی لاکھ ن لیگ کے ورکروں کو اسپیشل کارڈ دیں گے جو روزانہ میٹرو پر چڑھیں گے باقی ایک کروڑ ان کا منہ تکتے رہیں گے ہزاروں لوگ جو روزانہ لاہور کام کی غرض سے آتے ہیں ان کا بھی اورینج لائن پر چڑھنا منع ہوگا ڈاکٹر صاحب نے حکومت کی نااہلی کی منظر کشی بھی کی کہ کس طرح یہ پیسے اسکولوں پر لگائے جاتے تو ہزاروں بچوں کا بھلا ہوجاتا کس طرح ہزاروں اسکولوں میں missing facilities کے مسائل حل کئے جاسکتے تھے ڈاکٹر صاحب نے انتہائی مہارت سے بتایا کہ یہ سب رقم حکومت ایک سال میں خرچ کرنے جارہی ہے انتہائی معصومیت سے پورے ملک کے تعلیمی اعدادوشمار پنجاب کے کھاتے میں ڈال دئیے

چلیں آئیں چند گزارشات ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں ہم بھی عرض کرتے ہیں ہم ڈاکٹر صاحب جیسے پڑھے لکھے تو نہیں ہیں لیکن کوشش کرتے ہیں کہ شائد ڈاکٹر صاحب کے نالج تک پہنچ سکیں اگر جناب کوشش کرتے اور ڈھائی لاکھ لوگوں کو تیس سے ضرب دیتے پھر ان کو بارہ سے ضرب دیتے تو یہ تقریبا 9 کروڑ لوگ بنتے ہیں جو ہر سال میٹرو پر سفر کریں پھر یہ سفر کئی دہائیوں تک جاری رہے گا اب آپ اگر سمجھدار ہیں تو قیمت خود ہی نکال لیں پھر ڈاکٹر صاحب نے نہائت انکساری کے ساتھ یہ بتانا پسند تک نہ کیا کہ یہ 162 ارب روپے چائنا کی حکومت پنجاب کو سافٹ لون دے رہی ہے یہ آنے والے 20-27 سال میں واپس کرنا ہے جو ہر سال 10 ارب بھی نہیں بنتا مطلب اگر ہم یہ بھی assume کرلیں کہ اگلے بیس سال تک پنجاب کا بجٹ یہی رہے گا پھر بھی یہ ہر سال بجٹ کا 1% بھی نہیں بنتا حالانکہ پنجاب کا بجٹ گزشتہ پانچ سال میں ڈبل ہوگیا ہے مزے کی بات یہ ہے کہ کیونکہ یہ سافٹ لون ہے اس پر مارک اپ صرف  2.4% ہے ڈاکٹر صاحب نے یہ بھی بتانا گوارا نہ کیا کہ پنجاب میں ایجوکیشن بجٹ کا تقریبا 25% ہے جو لگ بھگ 267 ارب روپے بنتا ہے تازہ الف الان کی رپورٹ کے مطابق پنجاب missing facilities, teacher attendance, enrolment وغیرہ کے اعدادوشمار میں باقی تمام صوبوں سے آگے ہے اس لئے اورینج لائن کا مقابلہ تعلیم سے کرنا شدید مذاق ہے وہ بھی ایک ایسے منصوبے کے ساتھ جسے چائنا فنڈ کررہا ہے جس سے کروڑوں لوگوں کو فائدہ ہوگا جس کا پنجاب بجٹ پر بوجھ انتہائی کم ہوگا جبکہ تعلیم کے لئے پنجاب ہر سال بجٹ کا خطیر حصہ خرچ کررہا اس بات پر بحث ہوسکتی کہ پیسہ سہی استعمال نہیں ہورہا ابھی بہت زیادہ کام کی ضرورت ہے لیکن حقائق کو مسخ کرنا زیادتی اور بددیانتی کے زمرے میں آتا ہے

مجھے قوی یقین ہے کہ ڈاکٹر صاحب بھولے آدمی ہیں ان کے پاس موجود کیلکولیٹر ان کو دھوکہ دے دیتا ہے یا پھر جس یونیورسٹی سے جناب نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی وہاں اعدادوشمار نکالنے کا یہی طریقہ تھا ورنہ ڈاکٹر صاحب جیسا معصوم بندہ ایسا کیوں کرے گا؟  لیکن ایسے اعدادوشمار پاکستان کے سب سے بڑے اخبار میں شائع ہونا لمحہ فکریہ ہے کم از کم ان اعدادوشمار کو verify تو کریں

Sunday 8 November 2015

بلدیاتی الیکشن اور تبدیلی

پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی الیکشن کا پہلا مرحلہ  اختتام پذیر ہوا ن لیگ نے پنجاب اور پیپلزپارٹی نے سندھ کو سویپ کیا جبکہ تبدیلی صرف جلسے جلوسوں اور ٹاک شوز تک محدود رہی یہ کوئی انہونی بات نہیں تھی کہ نتائج ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے حق میں آئے جب سے کپتان صاحب دھرنے سے اٹھے ہیں تقریبا 16 ضمنی الیکشن ہار چکے ہیں کنٹونمنٹ بورڈ، گلگت بلتستان کے الیکشن ہار چکے  خیبرپختنخواہ میں بھی بلدیاتی الیکشن میں اپوزیشن پارٹیاں کافی اضلاع میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئیں جو تحریک انصاف نے جنرل الیکشن میں جیتے تحریک انصاف صرف 10 اضلاع میں حکومت قائم کرسکی ہری پور کا ضمنی الیکشن بھی پچاس ہزار ووٹوں سے ہار گئے لیکن کپتان کو داد دینی پڑے گی وہ اب تک اپنی بات پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ ان کے ساتھ دھاندلی ہوگئی ہے

چلیں اب ذکر کرتے ہیں پنجاب کے دوسرے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات کا جہاں پہلے مرحلے کی طرح ن لیگ مقابلہ ن لیگ ہورہا ہے پھر تیسرے نمبر پر پی ٹی آئی میدان میں ہے آپ حیران ہوں گے کہ شائد میں پاگل ہوگیا ہوں کیسی بہکی بہکی باتیں کررہا ہوں ہوا کچھ یوں کہ گزشتہ دس دن سے  گوجرانوالہ ڈسٹرکٹ کی مختلف یونین کونسل میں جانے کا اتفاق ہوا کافی لوگوں سے بات چیت رہی کافی امیدواروں کی کمپین میں حصہ لیا تب جاکر اندازہ ہوا کہ ن لیگ انتہائی مہارت سے بلدیاتی الیکشن لڑ رہی ہے زیادہ تر شہری حلقے میں ن لیگ نے امیدوار شیر کے نشان پر کھڑے کئے ہیں کچھ جگہوں پر اپنے دوسرے گروپس کو بالٹی کے نشان پر الیکشن لڑنے کی اجازت دی ہے دیہاتی حلقوں میں جہاں دھڑے بندی کی سیاست ہوتی ہے برادری کی سیاست کا زور ہوتا وہاں کسی کو شیر کا الاٹ کیا گیا لیکن وہاں کئی یونین کونسل کو اوپن چھوڑ دیا گیا جہاں بالٹی، ہینگر، پریشر کوکر وغیرہ کے نشان سے ن لیگ کے امیدوار میدان میں اترے ہیں دونوں دھڑے نوازشریف اور شہباز شریف کی تصاویر کا استعمال کررہے ہیں دونوں پینلز کی قیادت لوکل MPA/MNA کررہے ہیں اس طرح انتہائی مہارت سے ن لیگ نے دھڑے بندی کی سیاست کو قائم رکھا ہے اپنے حمائتی لوکل سیاستدانوں کو پارٹی بدلنے بھی نہیں دی بلکہ سب کو ایک Level Playing Field مہیا کردی ہے کہ اپنا اپنا زور لگا لو جو بھی پینل جیتے گا اس کا چئیرمین شپ مل جائے گی ضلعی سطح پر جو پینل اکثریت میں ہوگا انہیں میئر شپ دے دی جائے گی اسطرح ایک سخت مقابلہ کی فضاء قائم کردی گئی انتخابی دنگل کی تیاری زوروشور سے جاری ہے لگتا یوں ہے کہ ہر جگہ یا تو شیر جیتے گا یا شیر کا حمائت یافتہ آذاد امیدوار جیتے گا

اب آتے ہیں تحریک انصاف کے امیدواروں کی طرف وہاں تو عجیب ہی کھچڑی پکا دی گئی ہے چوہدری سرور نے تمام لوٹوں کو پارٹی میں شامل کرلیا ہے اکثر جگہوں پر تنظیم بالکل ختم ہوگئی ہے یا تحریک انصاف کے دھڑے ایک دوسرے کی مخالفت میں ن لیگ کے آذاد امیدواروں کی سپورٹ کرتے دکھائی دیتے ہیں یا پھر خود پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے ہی امیدوار کے خلاف ہی الیکشن لڑ رہے ہیں اس دھڑے بندی کی وجہ سے ان کی پوزیشن انتہائی کمزور دکھائی دے رہی ہے کئی جگہوں پر تو امیدوار ہی کھڑا نہیں کئے گئے اگر دوسرے مرحلے کا تحریک انصاف کی حوالے سے احاطہ کیا جائے تو رزلٹ پہلے مرحلے سے مختلف نہیں ہوگا

اب آپ سب سوچ رہے ہوں گے کہ میں نے پیپلزپارٹی کا ذکر تو کیا ہی نہیں تو ان کی حالت یہ ہے کہ زیادہ تر پارٹی تحریک انصاف میں ضم ہوگئی ہے جو بچے ہیں وہ آذاد لڑ رہے ہیں کچھ جگہ پر چند جیالے آپ کو مقابلہ کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن وہ بھی معجزے کے انتظار میں ہیں

ن لیگ نے انتہائی مہارت سے بساط بچائی ہے اس بلدیاتی الیکشن کے بعد ان کا پنجاب میں hold بہت مضبوط اور گہرا ہوجائے گا 2018 کے الیکشن میں وارڈ سطح پر ان کے دھڑے مضبوط ہوجائیں گے اگر تحریک انصاف اس طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہی لوٹوں اور چلے ہوئے کارتوسوں پر بھروسہ کرتی رہی تو 2018 میں ایک اور دھرنے کے لئے اپنے آپ کو تیار کرے کیونکہ بہت بڑی دھاندلی ہونے جارہی ہے

Sunday 30 August 2015

عذاب خانوں سے سہولت خانوں تک کا سفر

رات چند ہفتے پہلے ہونے والا ایک ٹاک شو دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں خواجہ آصف اپنی حکومت کی کارگردگی کا تذکرہ کررہے تھے کس طرح لوڈشیڈنگ کم کی دہشتگردی کی لعنت پر کافی حد تک قابو پایا شہر شہر میٹرو اور موٹر وے بنا رہے ہیں اچانک اینکر کاشف عباسی نے کہا کہ خواجہ صاحب یہ تو کوئی بھی کرسکتا تھا آپ نے پٹوار خانوں کا کیا کیا غریب رل گیا ہے تباہ ہوگیا ہے کیونکہ حکومت کی اصل ذمہ داری تو ریفارم ایجنڈا ہوتی ہے خواجہ صاحب حیران پریشان کاشف عباسی کی شکل دیکھنا شروع ہوگئے فرمانے لگے آپ بجا فرما رہے ہمیں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے میں یہ پروگرام دیکھتے ہوئے حیران پریشان بیٹھا تھا کیونکہ تین دن پہلے ہی میرے لندن پلٹ کزن نے ایک حیران کن واقعہ سنایا یاد رہے یہ لندن پلٹ کزن عمران خان کا شیدائی تھا ہوا کچھ یوں کہ بھائی صاحب کے والد فوت ہوگئے اب انہیں اپنی آبائی جائداد کے کاغذ چائیے تھے بڑے پریشان لندن سے واپس آئے کہ اب کیا بنے گا سفارشیں ڈھونڈ رہے تھے کیونکہ موصوف کے والد صاحب تو اب رہے نہیں تھے جو سارا کام سھنبالتے تھے ساری فیملی سالوں سے منڈی بہاؤالدین چھوڑ کر لندن اور لاہور شفٹ ہوگئی تھی جناب کے ذہن میں وہی پرانے پٹوار خانے اور بھیانک پٹواری تھے جو بات کرنے کے بھی پیسے لیتے تھے مہینوں کام کو لٹکانے کے ماہر تھے موصوف ان سب باتوں پر یقین کرتے تھے جو وہ میڈیا اور کپتان کی تقریروں میں سنتے تھے یا انصاف ویب سائٹ ان تک پہنچاتی تھی ڈرے سہمے کزن صاحب منڈی بہاؤالدین پہنچے پہلے تو زمین سہولت مرکز دیکھ کر حیران رہ گئے اندر پہنچے تو کاونٹر پر اپنا مدا بیان کیا تو ان کو فرد والی لائن کی طرف بھیج دیا گیا جہاں جناب نے لائن میں لگ کر لگ بھگ سو ڈیڑھ سو روپیہ خرچ کرکے ٹوکن حاصل کیا انہیں بتایا گیا کہ 2-3 گھنٹہ انتظار کریں اس کے بعد آپ کو کمپیوٹرائزڈ فرد مل جائے گی جناب حیران پریشان سکتے کی کیفیت میں انتظار گاہ میں بیٹھ گئے سوچوں میں گم وہاں پڑی اخبار کا مطالعہ کرنے لگے قریبا دو گھنٹے بعد ان کو دئیے گئے ٹوکن کا نمبر سکرین پر چلنا شروع ہوگیا موصوف نے اپنی زمینوں کی فرد وصول کی اور حیران پریشان منڈی بہاؤالدین سے لوٹ آئے چند دن بعد گھر بیٹھے جب سارے جوڈیشل کمیشن میں ہار کے بعد تحریک انصاف کے سپورٹر کزنز کی کلاس لے رہے تھے تو انہوں نے پٹوار خانوں کی کرپشن کا ذکر شروع کردیا میرا یہ والا کزن جو ان کا لیڈر تھا اور آج بالکل خاموش سوچوں میں گم تھا اچانک پھٹ پڑا اپنے بیگ سے اپنی فرد نکال کر بولا کہ یہ ہے اصل تبدیلی صرف چند گھنٹوں میں مجھے میری زمین کی تفصیلات دے دی گئیں بغیر کسی رشوت اور خواری کے بلکہ چیف منسٹر کی پہلے Robocall آئی پھر SMS آیا جس میں مجھ سے پوچھا گیا کہ مجھ سے عملے نے رشوت تو طلب نہیں کی میں نے SMS سے بتایا کہ میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا گیا
اس پروگرام اور واقعہ کو سننے کے بعد میں نے یہ بلاگ لکھنے کا فیصلہ کیا تاکہ آپ لوگوں تک تفصیلات پہنچا سکوں جو پاکستانی اینکرز کو تو چھوڑیں بلکہ حکومتی وزرا تک کو نہیں پتہ جو مختلف ٹاک شوز میں جاتے ہیں صوبہ پنجاب میں پٹوار خانوں کو کمپیوٹرائزڈ کرنے کا سلسلہ 2008 میں شروع کیا گیا فیصلہ کیا گیا کہ پرانے اور دقیانوسی نظام سے نجات حاصل کی جائے جو انگریز دور سے چلا آرہا ہے جو پنجاب میں کام کرتے آٹھ ہزار پٹواریوں کو تو کروڑ پتی بنا گیا لیکن دو کروڑ عوام جو پنجاب میں پراپرٹی کے مالک ہیں ان کو علاقے کے سیاستدانوں کا محتاج کرتا تھا جس نے ان کی عزت نفس کو ختم کردیا اس نظام کو ختم کرنے میں بےشمار رکاوٹیں آئیں سب سے بڑی رکاوٹ لوکل بااثر سیاستدانوں کے مافیا سے آئی لیکن چیف منسٹر شہباز شریف نے اس کا بیڑا اٹھایا کسی سفارش کو نہ مانا حالانکہ اس پروگرام کو Controversial بنانے کی کوشش کی گئی پٹواریوں نے لاتعداد بہانے بنائے کئی جگہ پر ریکارڈ غائب کردیا گیا معاملات عدالتوں تک گئے لیکن یہ پروگرام چلتا گیا آج الحمداللہ پنجاب کے 31 اضلاع کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کرلیا گیا ہے پنجاب کی 143 تحصیلوں تک اس کا دائرہ کار پھیلا دیا گیا ہے 90 سے زیادہ سہولت سنٹر قائم کردیئے گئے ہیں جو تمام کے تمام آپس میں connected ہیں highly trained اور skilled staff ان سنٹرز پر کام کررہا ہے ان کو میرٹ پر بھرتی کیا گیا ہے مختلف اخباروں میں ان کی بھرتی کے کئے اشتہارات شائع کئے جاتے ہیں یہ سہولت سنٹرز اس سال دسمبر تک پنجاب کے 36 اضلاع تک پھیل جائیں گے ان سہولت سنٹرز کا نام Punjab Land  Record Management Information System ہے ابھی ان سہولت مراکز اور پٹوار سسٹم کو ساتھ ساتھ چلایا جارہا ہے تاکہ سسٹم کے تمام مسائل سے چھٹکارا حاصل ہونے تک لوگوں کو پریشانی نہ ہو
بات یہاں ختم نہیں ہوتی پورے پنجاب میں اس وقت Citizen Feedback System نامی پروگرام کام کررہا ہے جو پنجاب کے مختلف محکموں میں ہونے والی کرپشن پر نظر رکھتا ہے اس سسٹم کی خوبی یہ ہے کہ محکموں میں جانے والے لوگ خود گواہ ہوتے ہیں کہ ان کے ساتھ عملے نے کیسا رویہ رکھا محکمے میں جانے کے بعد چیف منسٹر کی آواز میں ایک Robocall آتی ہے جس میں ان سے  محکمانہ کرپشن اور عملے کے رویے کا پوچھا جاتا ہے پھر انہیں SMS موصول ہوتا کہ کہیں ان سے رشوت یا پھر کوئی برا برتاو تو نہیں برتا گیا اس سسٹم کا دائرہ کار آہستہ آہستہ تمام اداروں تک پھیل رہا ہے اب تک تقریبا 7.3 ملین Transection ہوئیں تقریبا چھ لاکھ لوگوں کو Feedback calls جاچکی ہیں تقریبا 21 لاکھ لوگوں کو SMS جا چکے ہیں صرف چھ ماہ میں تقریبا 800 کے قریب کرپشن کے کیس لوکل DCO سطح پر حل ہوچکے اس پروگرام کو ورلڈ بنک نے اپنے Thirteen Most Innovative Programs میں شامل کیا اس پروگرام کو فنڈ بھی کیا اب پورے پنجاب میں پھیل چکا ہے پنجاب حکومت نے اس کا اپنا فنڈ قائم کردیا ہے دنیا میں اتنا مقبول ہورہا ہے کہ ورلڈ بنک نے ابھی اس پروگرام کو دوسرے ملکوں میں فنڈ کرنا شروع کیا ہے اسی پروگرام کا دائرہ اختیار وفاقی حکومت نے NADRA اور Passport کے محکموں تک پھیلا دیا ہے خیبرپختنخواہ نے بھی اسے اپنے صوبے میں شروع کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے ورلڈ بنک کے سروے کے مطابق لوگوں کی بڑی تعداد اس پروگرام کی افادیت سے بہت خوش ہے یہ Phone Based سروے جس میں 20 ہزار لوگوں سے اس سسٹم کی افادیت پر سوال کئے گئے 53% لوگوں نے کہا کہ سروس بہتر ہوئی 73% نے کہا کہ اسٹاف کے رویے میں بہتری آئی 70% سے زائد نے کہا کہ مستقبل میں مزید بہتری آئے گی 33% نے کہا کہ کرپشن میں بھی کمی آئی
کیا کبھی آپ نے میڈیا میں ان انقلابی اقدامات پر پروگرام دیکھے کیا کبھی زبیر بھٹی جیسے افسران جنہوں نے Citizen Feedback Model کو جھنگ سے شروع کیا جسے اب دنیا ایک بہترین ماڈل قرار دے رہی ہے انہیں میڈیا پر پزیرائی ملی؟ کیا ان سب DCO صاحبان کو جنہوں نے اسے کامیاب بنانے کے کئے دن رات ایک کردیا ان کا نام کبھی میڈیا پر سنا؟ کیا ڈاکٹر عمر سیف جیسے لوگ جنہوں نے پٹوار خانوں اور Citizen Feedback جیسے منصوبوں کو کمپیوٹرائزڈ کیا ان کو میڈیا پر کوریج دیکھی؟ وہ تمام پنجاب ٹیکنالوجی بورڈ کے افسران جو ڈاکٹر عمر سیف کی قیادت میں دن رات ایک کررہے ان سسٹمز کو بنانے اور کامیابی سے چلانے کے لئے ان پر کتنے ٹی وی پروگرام کئے گئے؟ "سب سے بڑھ کر صوبے کا وزیراعلٰی جسے دن رات طعنے ملتے کہ وہ سسٹم بنانے کے لئے کیا کررہا اسے دہائیوں سے چلا آرہے کرپٹ نظام کو ختم کرنے کا کریڈٹ ملا؟ کیا بےہنگم انداز میں چیختے چلاتے اینکروں نے چیخ چیخ کر شہباز شریف کی تعریف کی؟ کیا کبھی سوشل میڈیا پر بیٹھے ناقدین نے #ThankYouShehbazSharif کا ٹرینڈ بنایا؟ بلکہ  الٹا چیخ چیخ کر جھوٹ بولا جاتا ہے کہ ابھی کرپٹ پٹوار خانے ختم کرنے کے لئے کچھ نہیں ہورہا"؟
حال میں آئی گیلپ سروے کی رپورٹ کے مطابق ہمارے ٹی وی ٹاک شوز کا بیشتر حصہ سیاست/سیکیورٹی امور پر روشنی ڈالتے گزر جاتا تعلیم، صحت، گورنس، خارجہ پالیسی جیسے سنجیدہ موضوعات پر 20% ٹاک شوز بھی نہیں ہوتے؟ کیا ہماری اسٹیٹ کا ایک ستون میڈیا اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھا رہا ہے؟ 

Sunday 2 August 2015

PP 100 Facts

Recently concluded by election in PP 100 was very interesting and unique, the seat was vacated due to murder of Local MPA Rana Shamshad with his son and a family friend. The murder caused a rift between local Jatt clan and Rajput Clan, the election became a local battle of two very powerful clans. Ch Sarwar played a very vital role as well by luring N league supporter Ahsan Virk and PPP NA candidate in last elections Zulifiqar Bhindar into PTI, so technically knocking off N league Jatt voters in the constituency. The PTI candidate ran a fierce campaign as well. The N candidate thinking it an easy ride started the campaign a bit late but soon realized it's not going to be easy to retain the seat despite backed by huge sympathy vote after tragic Shamshad Khan murder with his young son who was about to leave for UK for his studies.
The Rajput clan domination of NA/PA constituency of the area run over decades, In 2008 Zulifiqar Bhindar won the PA seat while running on PPP ticket but then Shamshad Khan was denied N league ticket, he ran on Q League ticket and was beaten badly. This time despite having sympathy vote, it became a tough ride as it became a personal battle of two Bradaris, a close fight was expected but in the end Akhtar Khan of N league won comfortably by 20k vote margin but PTI almost doubled it's vote bank purely because of Jatt vote bank.
As we locals were expecting a close fight, it stunned many as in the end it turned out to be a one horse race, N league winning big in the city while PTI candidate getting good bradari vote from villages. It was even more shocking for us as PTI known to have urban base but they lost badly in the city. I ran a little survey in my hospital to know the cause of PTI thumping defeat and N league comfortable win. Asked my patients with ink mark on their thumb, whom they voted and why they voted a particularly party. . Here are the results of little survey.
Total Votes! 167
N league! 100 votes
PTI! 61 votes
PPP! 6 votes
N league vote Division!
Party Vote! 60 votes
Rajput clan! 27 votes
Sympathy votes! 13
PTI Vote Division!
Party vote! 17 votes
Jatt Clan Vote! 44 votes
PPP Vote Division!
PPP Votes! 1 votes
Bradari Vote! 5 votes
Astonishing stats, as it was common belief that PTI will secure more party votes from the city but instead N league won more party votes in the city..
when asked why you voted for N league. . The Answer was even more surprising..
 
I ) Improvement in Loadshedding In Ramzan
2) City infrastructure including newly built drainage system and roads of the city, which was centrally controlled by CM Office and inspection team deputed which continuously monitor the project
3) The small retailers and businessmen happy with their sales
4) No other option available
 
Why you didn't vote for PTI
 
1) IK failed to deliver on his promises, he organised a failed Dharna, tried to sabotage our businesses.
2) Lost his case in Judicial Commission
3) Disappointed Youth
4) Can't run the country
 
N league may learn lesson or two from PP 100 where despite huge alliance formed against them, still they won easily. They need to break monopoly of families, ruling for decades, they need to bring new leadership in upcoming local body elections, give tickets to new families/clans, so their party can expand even further and grow on strong footings as their opponents facing existential threat it's high time N league can cash on their popularity to broaden their vote bank and party cadder, otherwise they may face tough competition in 2018 GE as few of their local candidates are hated among masses!

Sunday 26 July 2015

کپتان کو لگے 35 پنکچر

جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ آگئی ہے اس نے 2013 کے انتخابات کو منصفانہ اور قانون کے مطابق قرار دے دیا ہے کپتان کے لگائے گئے تمام الزامات کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا ہے موجودہ حکومت کے مینڈیٹ کو عوامی امنگوں کا عکاس قرار دیا گیا ہے ن لیگ ووٹر ایک جشن کی سی کیفیت میں ہے وہ دنیا کی تاریخ میں واحد ووٹر بن گیا ہے جو اپنی جیت کا جشن دوسری دفعہ منا رہا ہے سوشل میڈیا، نجی محفلوں، چوپالوں میں تحریکی انصاف کے ووٹر کو کپتانی سیاست کی وجہ سے ہزیمت کا سامنا ہے
دوسری طرف لیگی ووٹر اپنے لیڈر کی دوراندیشی، معاملہ فہمی، مدبرانہ اور maturity والی سیاست پر پھولا نہیں سما رہا کیونکہ نوازشریف پر اپنے ووٹر کی طرف سے بڑا پریشر تھا کہ وہ دھرنا دینے والوں اور گندی زبان استعمال کرنے والوں کے خلاف سخت کاروائی کیوں نہیں کرتا؟ کیوں اداروں کو پامال کرنے کی اجازت دی جارہی ہے؟ کیوں ان کے ووٹ کی بےتوقیری پر ان کا لیڈر خاموش تماشائی بنا ہوا ہے؟ لیکن نوازشریف نے 126 دن کے دھرنے کو انتہائی خندہ پیشانی اور حوصلے سے برداشت کیا کیونکہ نوازشریف 90 کی سیاست سے بہت کچھ سیکھ کر آیا تھا جب کے اس کے مخالفین 90 کی دہائی میں پھنس گئے تھے وہ جانتا تھا اس کی چھوٹی سی غلطی تیسری قوت کا راستہ ہموار کردے گی جہاں ڈٹ جانے کا وقت آیا تو استعفئ نہ دینے پر ڈٹ گیا ہزاروں لوگوں کو اس کے گھر کے سامنے لا کھڑا کردیا گیا لیکن وہ نہ ہلا یہاں تک کے دھرنے دینے والے باری باری دھرنا سمیٹ کر نکل گئے جبکہ عمران خان بےوقوف اپنے ہی بچھائے جال میں پھنس گیا
عمران خان نے بہت سارے الزامات لگائے بہت سارے اداروں اور لوگوں کی پگڑیوں کو ڈی چوک میں اچھالا گیا لیکن جو الزام سب سے زیادہ سبکی کا باعث بنا وہ 35 پنکچر کی ٹیپ تھا جو کپتان کے بقول گیم چینجر تھی جس سے دھاندلی بری طرح بےنقاب ہوجائے گی لیکن دوسرے بےشمار الزامات کی طرح خان صاحب جوڈیشل کمیشن میں کوئی ٹیپ پیش کرنے میں ناکام رہے اب میں سوچتا ہوں کہ یہ 35 پنکچر کہیں خان صاحب اور ان کی پارٹی کو تو نہیں لگا دئیے گئے یا پھر خان صاحب نے اپنی پارٹی کو خود ہی تو 35 پنکچر نہیں لگا دئیے یا پھر نوازشریف نے اپنی دوراندیشی اور مدبرانہ سیاست سے خان صاحب کی سیاست کو تو 35 پنکچر نہیں لگا دئیے یا پھر چند ریٹائر جنرل صاحبان نے اپنے فائدے کے لئے تو کپتان کی پارٹی کو 35 پنکچر نہیں لگا دئیے یا پھر چند نام نہاد اینکر صاحبان اور میڈیا مالکان نے اپنے فائدے اور ریٹنگ کے لئے خان صاحب کو پنکچر لگا دئیے ہیں؟ کیونکہ 35 پنکچر تو واقعی ہی لگ گئے ہیں اس میں بھی اب کوئی شک نہیں رہا کہ یہ پنکچر خان صاحب اور ان کی سیاست کو لگا دئیے گئے ہیں یہ ایسے پنکچر ہیں جنہوں نے پاکستان تحریک انصاف کی سیاسی گاڑی کو بہت بڑی زک پہنچائی ہے
آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ پنکچر لگانے کا سلسلہ کب اور کہاں سے شروع ہوا کس کس نے کتنا حصہ ڈالا!
پنکچر 1-5! 35 پنکچر کا سلسلہ مینار پاکستان لاہور سے شروع ہوگیا تھا جب کپتان نے اپنے چاہنے والوں کو بتایا کہ وہ اس کرپٹ مافیا کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا ہے وہ کسی بھی وقت ملک کے تمام شہروں کو بلاک کردے گا وہ کبھی اس کرپٹ سسٹم کا حصہ نہیں بنے گا وہ زرادری/نواز مک مکا سیاست کا خاتمہ کرکے کے دم لے گا لیکن پھر ہم نے دیکھا کہ ق لیگ کے لوٹے جوک در جوک تحریک انصاف میں شامل کئے گئے نوجوانوں کو بتایا گیا کہ وہ اب فرشتے کہاں سے لائے شہر شہر جاکر لوٹوں کا استقبال کیا گیا سونامی کی نوید سنا دی گئی اپنی ہی پارٹی کو پنکچر لگانے کی ابتدا گریٹ کپتان نے خوف کردی
پنکچر 5-10! کلین سویپ کا ایسا نعرہ لگایا کہ نوجوانوں کو یقین ہوگیا کہ بس فتح ہماری ہی ہوگی بات یہیں نہیں رکی ایک چینل اینکر کو لکھ کر بھی دے دیا کہ تحریک انصاف دو تہائی اکثریت حاصل کرے گی پارٹی الیکشن کروائے کچھ چاچوں کو جتوایا لیکن اندرون خانہ ترین، ڈار، خٹک، سواتی، علیم خان جیسے لوٹے اپنے پیسے کے بل بوتے پر پارٹی پر قابض ہوگئے جوڈیشل کمیشن تو الیکشن 2013 میں کوئی دھاندلی نہ ڈھونڈ سکا لیکن کپتان کے اپنے بنائے ہوئے کمیشن نے انٹرا پارٹی الیکشن کو فراڈ قرار دے دیا نوجوانوں کو الیکشن میں ٹکٹ دینے کا وعدہ کیا لیکن بچارے کپتان کی راہ ہی تکتے رہ گئے اور ق لیگ کے لوٹے نما فرشتے ساری ٹکٹیں لے اڑے
پنکچر 10-15! ہسپتال سے الیکشن رزلٹ کو مان لیا گیا لیکن پھر ہلکی موسیقی پر الیکشن کو فراڈ بھی کہا جاتا رہا پھر بینڈ باجے کے ساتھ یہ دھاندلی راگ سنایا گیا بات چار حلقوں سے شروع ہوئی پھر اسے نہائت سادگی سے پورے پنجاب میں پھیلا دیا گیا جبکہ باقی صوبوں کو بالکل اگنور کردیا گیا کیونکہ وہاں تو فرشتوں نے الیکشن کرائے 2013 الیکشن مہم کی طرح حوالدار میڈیا پھر میدان میں کودا نہائت مہارت سے کپتان کے دھاندلی راگ کو پروموٹ کیا گیا حوالدار اینکروں کی ایک نئی فوج میڈیا پر نمودار ہوئی اور الیکشن 2013 کو فراڈ قرار دیا گیا
پنکچر 15-25! جسٹس افتخار چوہدری، خلیل رمدے، فخرو بھائی، سیٹھی، برگیڈیر ایم آئی، جیو، الیکشن کمیشن، انتظامیہ، جوڈیشل ٹربیونل سب کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی اس سارے ڈرامے کا ڈراپ سین 14 اگست کی لانگ مارچ تھا جب لاکھوں لوگوں نے دس لاکھ موٹرسائیکل پر بیٹھ کر ڈی چوک پہنچنا تھا نوازشریف نے کانپتے ہوئے استعفئ دے دینا تھا کپتان نے وزارت عظمی کے منصب پر براجمان ہوجانا تھا
پنکچر 25-29! کہا جاتا رہا کہ یہ سب کچھ ہم نے خود سوچا اور پلان کیا لیکن وقت نے ثابت کیا کہ کپتان کے پیچھے طاقتور لوگ تھے جنہوں نے یقین دہانی کرائی تھی کہ جیسے ہی لاکھوں بندے اسلام آباد داخل ہوں گے پسینے سے شرابور، کانپتی ٹانگوں والا نوازشریف استعفئ دے کر بھاگ جائے گا لیکن نہ نوازشریف کی ٹانگیں کانپی اور نہ بدقسمت کپتان لاکھوں لوگ اکٹھے کر سکا یہاں تک کے چمکتا دھمکتا چہرہ لئے کپتان آرمی چیف کی خدمت میں حاضر ہوا لیکن وہاں سے صاف جواب ملا کہ استعفئ بھول جاو باقی اگر کوئی شکائت ہے تو بتاو یہاں تک بات پہنچی کہ بڑے بھائی اور تحریکی نوجوانوں کے تایا ابو دھرنا سمیٹ کر پتلی گلی سے نکل گئے لیکن کپتان اپنی پارٹی/سپورٹرز کو پنکچر لگتے دیکھتا رہا
پنکچر 30! جو سب سے خطرناک پنکچر کپتان کو لگا وہ جاوید ہاشمی والا تھا جس نے بیچ چوراہے لندن پلان والوں کی ہنڈیا پھوڑ دی اب جب بھی جمہوری تاریخ لکھی جائے گی جاوید ہاشمی کے پنکچر کو سنہرے حروف میں لکھا جائے گا
پنکچر 31! یہ پنکچر دھرنے کے پیچھے ان طاقتور لوگوں نے لگایا جو اپنا مطلب پورا ہونے پر کپتان کو ردی کی ٹوکری میں پھینک کر چلتے بنے بچارا کپتان اور اس کی پارٹی بےیارو مددگار دیواروں سے ٹکریں مار رہی ہے
پنکچر 32! یہ ان میڈیا چینلوں اور اینکروں نے لگایا جنہوں نے اپنی ریٹنگ اور طاقتور قوتوں کے کہنے پر دھاندلی غبارے میں ہوا بھری پنکچر ٹیپ کی اسٹوری گھڑی اب جب کپتان بچارے کو ان کی ضرورت ہے وہ چینلوں پر بیٹھے اس کی سیاست کا مذاق بنا رہے ہیں
پنکچر 33! یہ پارلیمنٹ میں بیٹھی سیاسی پارٹیوں نے لگایا جو سب دھرنے کے خلاف اکٹھی ہو گئیں
پنکچر 34! یہ والا پنکچر نوازشریف کی سیاست نے لگایا جس نے تحمل سے بدتمیزی اور لغو گفتگو برداشت کی سیاسی جنگ کو قانونی بنا دیا کیونکہ وہ دھرنے کے محرکات سے بخوبی آگاہ تھا اسے معلوم تھا اس سارے افسانے میں کپتان کا کردار ایک ثانوی حیثیت رکھتا ہے
پنکچر 35! یہ والا پنکچر جوڈیشل کمیشن نے لگایا جنہوں نے ایک ایسی تحقیق کی جو شائد ہی کبھی پاکستانی تاریخ میں کی گئی ہو انہوں نے اس الیکشن پر مہر لگا دی غیرجہموری قوتوں کو ایک سخت پیغام بھیجا کہ اب جمہوریت میں ہی اس ملک کی بقاء ہے ورنہ ہم سب جانتے ہیں ماضی میں کس طرح نظریہ ضرورت کے تحت جمہوریت کا تختہ الٹا جاتا رہا
نوٹ! مجھے لگتا تھا کہ بات 35 پنکچر پر رک جائے گی لیکن جیسا کے کپتان نے خود 70 پنکچر کا ذکر کردیا ہے اب اللہ خیر ہی کرے کہیں اگلے تین سال وہ 70 پنکچر پورے کرنے کی نہ ٹھان لے کیونکہ اس کی ابتدا کپتان نے کردی ہے جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ مان لیا لیکن الزامات واپس لینے سے انکاری ہوگیا حالانکہ خود اس کی پارٹی نے معاہدہ کیا تھا کہ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کے بعد الزامات واپس لئے جائیں گے معافی مانگی جائے گی!