Sunday, 30 August 2015

عذاب خانوں سے سہولت خانوں تک کا سفر

رات چند ہفتے پہلے ہونے والا ایک ٹاک شو دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں خواجہ آصف اپنی حکومت کی کارگردگی کا تذکرہ کررہے تھے کس طرح لوڈشیڈنگ کم کی دہشتگردی کی لعنت پر کافی حد تک قابو پایا شہر شہر میٹرو اور موٹر وے بنا رہے ہیں اچانک اینکر کاشف عباسی نے کہا کہ خواجہ صاحب یہ تو کوئی بھی کرسکتا تھا آپ نے پٹوار خانوں کا کیا کیا غریب رل گیا ہے تباہ ہوگیا ہے کیونکہ حکومت کی اصل ذمہ داری تو ریفارم ایجنڈا ہوتی ہے خواجہ صاحب حیران پریشان کاشف عباسی کی شکل دیکھنا شروع ہوگئے فرمانے لگے آپ بجا فرما رہے ہمیں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے میں یہ پروگرام دیکھتے ہوئے حیران پریشان بیٹھا تھا کیونکہ تین دن پہلے ہی میرے لندن پلٹ کزن نے ایک حیران کن واقعہ سنایا یاد رہے یہ لندن پلٹ کزن عمران خان کا شیدائی تھا ہوا کچھ یوں کہ بھائی صاحب کے والد فوت ہوگئے اب انہیں اپنی آبائی جائداد کے کاغذ چائیے تھے بڑے پریشان لندن سے واپس آئے کہ اب کیا بنے گا سفارشیں ڈھونڈ رہے تھے کیونکہ موصوف کے والد صاحب تو اب رہے نہیں تھے جو سارا کام سھنبالتے تھے ساری فیملی سالوں سے منڈی بہاؤالدین چھوڑ کر لندن اور لاہور شفٹ ہوگئی تھی جناب کے ذہن میں وہی پرانے پٹوار خانے اور بھیانک پٹواری تھے جو بات کرنے کے بھی پیسے لیتے تھے مہینوں کام کو لٹکانے کے ماہر تھے موصوف ان سب باتوں پر یقین کرتے تھے جو وہ میڈیا اور کپتان کی تقریروں میں سنتے تھے یا انصاف ویب سائٹ ان تک پہنچاتی تھی ڈرے سہمے کزن صاحب منڈی بہاؤالدین پہنچے پہلے تو زمین سہولت مرکز دیکھ کر حیران رہ گئے اندر پہنچے تو کاونٹر پر اپنا مدا بیان کیا تو ان کو فرد والی لائن کی طرف بھیج دیا گیا جہاں جناب نے لائن میں لگ کر لگ بھگ سو ڈیڑھ سو روپیہ خرچ کرکے ٹوکن حاصل کیا انہیں بتایا گیا کہ 2-3 گھنٹہ انتظار کریں اس کے بعد آپ کو کمپیوٹرائزڈ فرد مل جائے گی جناب حیران پریشان سکتے کی کیفیت میں انتظار گاہ میں بیٹھ گئے سوچوں میں گم وہاں پڑی اخبار کا مطالعہ کرنے لگے قریبا دو گھنٹے بعد ان کو دئیے گئے ٹوکن کا نمبر سکرین پر چلنا شروع ہوگیا موصوف نے اپنی زمینوں کی فرد وصول کی اور حیران پریشان منڈی بہاؤالدین سے لوٹ آئے چند دن بعد گھر بیٹھے جب سارے جوڈیشل کمیشن میں ہار کے بعد تحریک انصاف کے سپورٹر کزنز کی کلاس لے رہے تھے تو انہوں نے پٹوار خانوں کی کرپشن کا ذکر شروع کردیا میرا یہ والا کزن جو ان کا لیڈر تھا اور آج بالکل خاموش سوچوں میں گم تھا اچانک پھٹ پڑا اپنے بیگ سے اپنی فرد نکال کر بولا کہ یہ ہے اصل تبدیلی صرف چند گھنٹوں میں مجھے میری زمین کی تفصیلات دے دی گئیں بغیر کسی رشوت اور خواری کے بلکہ چیف منسٹر کی پہلے Robocall آئی پھر SMS آیا جس میں مجھ سے پوچھا گیا کہ مجھ سے عملے نے رشوت تو طلب نہیں کی میں نے SMS سے بتایا کہ میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا گیا
اس پروگرام اور واقعہ کو سننے کے بعد میں نے یہ بلاگ لکھنے کا فیصلہ کیا تاکہ آپ لوگوں تک تفصیلات پہنچا سکوں جو پاکستانی اینکرز کو تو چھوڑیں بلکہ حکومتی وزرا تک کو نہیں پتہ جو مختلف ٹاک شوز میں جاتے ہیں صوبہ پنجاب میں پٹوار خانوں کو کمپیوٹرائزڈ کرنے کا سلسلہ 2008 میں شروع کیا گیا فیصلہ کیا گیا کہ پرانے اور دقیانوسی نظام سے نجات حاصل کی جائے جو انگریز دور سے چلا آرہا ہے جو پنجاب میں کام کرتے آٹھ ہزار پٹواریوں کو تو کروڑ پتی بنا گیا لیکن دو کروڑ عوام جو پنجاب میں پراپرٹی کے مالک ہیں ان کو علاقے کے سیاستدانوں کا محتاج کرتا تھا جس نے ان کی عزت نفس کو ختم کردیا اس نظام کو ختم کرنے میں بےشمار رکاوٹیں آئیں سب سے بڑی رکاوٹ لوکل بااثر سیاستدانوں کے مافیا سے آئی لیکن چیف منسٹر شہباز شریف نے اس کا بیڑا اٹھایا کسی سفارش کو نہ مانا حالانکہ اس پروگرام کو Controversial بنانے کی کوشش کی گئی پٹواریوں نے لاتعداد بہانے بنائے کئی جگہ پر ریکارڈ غائب کردیا گیا معاملات عدالتوں تک گئے لیکن یہ پروگرام چلتا گیا آج الحمداللہ پنجاب کے 31 اضلاع کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کرلیا گیا ہے پنجاب کی 143 تحصیلوں تک اس کا دائرہ کار پھیلا دیا گیا ہے 90 سے زیادہ سہولت سنٹر قائم کردیئے گئے ہیں جو تمام کے تمام آپس میں connected ہیں highly trained اور skilled staff ان سنٹرز پر کام کررہا ہے ان کو میرٹ پر بھرتی کیا گیا ہے مختلف اخباروں میں ان کی بھرتی کے کئے اشتہارات شائع کئے جاتے ہیں یہ سہولت سنٹرز اس سال دسمبر تک پنجاب کے 36 اضلاع تک پھیل جائیں گے ان سہولت سنٹرز کا نام Punjab Land  Record Management Information System ہے ابھی ان سہولت مراکز اور پٹوار سسٹم کو ساتھ ساتھ چلایا جارہا ہے تاکہ سسٹم کے تمام مسائل سے چھٹکارا حاصل ہونے تک لوگوں کو پریشانی نہ ہو
بات یہاں ختم نہیں ہوتی پورے پنجاب میں اس وقت Citizen Feedback System نامی پروگرام کام کررہا ہے جو پنجاب کے مختلف محکموں میں ہونے والی کرپشن پر نظر رکھتا ہے اس سسٹم کی خوبی یہ ہے کہ محکموں میں جانے والے لوگ خود گواہ ہوتے ہیں کہ ان کے ساتھ عملے نے کیسا رویہ رکھا محکمے میں جانے کے بعد چیف منسٹر کی آواز میں ایک Robocall آتی ہے جس میں ان سے  محکمانہ کرپشن اور عملے کے رویے کا پوچھا جاتا ہے پھر انہیں SMS موصول ہوتا کہ کہیں ان سے رشوت یا پھر کوئی برا برتاو تو نہیں برتا گیا اس سسٹم کا دائرہ کار آہستہ آہستہ تمام اداروں تک پھیل رہا ہے اب تک تقریبا 7.3 ملین Transection ہوئیں تقریبا چھ لاکھ لوگوں کو Feedback calls جاچکی ہیں تقریبا 21 لاکھ لوگوں کو SMS جا چکے ہیں صرف چھ ماہ میں تقریبا 800 کے قریب کرپشن کے کیس لوکل DCO سطح پر حل ہوچکے اس پروگرام کو ورلڈ بنک نے اپنے Thirteen Most Innovative Programs میں شامل کیا اس پروگرام کو فنڈ بھی کیا اب پورے پنجاب میں پھیل چکا ہے پنجاب حکومت نے اس کا اپنا فنڈ قائم کردیا ہے دنیا میں اتنا مقبول ہورہا ہے کہ ورلڈ بنک نے ابھی اس پروگرام کو دوسرے ملکوں میں فنڈ کرنا شروع کیا ہے اسی پروگرام کا دائرہ اختیار وفاقی حکومت نے NADRA اور Passport کے محکموں تک پھیلا دیا ہے خیبرپختنخواہ نے بھی اسے اپنے صوبے میں شروع کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے ورلڈ بنک کے سروے کے مطابق لوگوں کی بڑی تعداد اس پروگرام کی افادیت سے بہت خوش ہے یہ Phone Based سروے جس میں 20 ہزار لوگوں سے اس سسٹم کی افادیت پر سوال کئے گئے 53% لوگوں نے کہا کہ سروس بہتر ہوئی 73% نے کہا کہ اسٹاف کے رویے میں بہتری آئی 70% سے زائد نے کہا کہ مستقبل میں مزید بہتری آئے گی 33% نے کہا کہ کرپشن میں بھی کمی آئی
کیا کبھی آپ نے میڈیا میں ان انقلابی اقدامات پر پروگرام دیکھے کیا کبھی زبیر بھٹی جیسے افسران جنہوں نے Citizen Feedback Model کو جھنگ سے شروع کیا جسے اب دنیا ایک بہترین ماڈل قرار دے رہی ہے انہیں میڈیا پر پزیرائی ملی؟ کیا ان سب DCO صاحبان کو جنہوں نے اسے کامیاب بنانے کے کئے دن رات ایک کردیا ان کا نام کبھی میڈیا پر سنا؟ کیا ڈاکٹر عمر سیف جیسے لوگ جنہوں نے پٹوار خانوں اور Citizen Feedback جیسے منصوبوں کو کمپیوٹرائزڈ کیا ان کو میڈیا پر کوریج دیکھی؟ وہ تمام پنجاب ٹیکنالوجی بورڈ کے افسران جو ڈاکٹر عمر سیف کی قیادت میں دن رات ایک کررہے ان سسٹمز کو بنانے اور کامیابی سے چلانے کے لئے ان پر کتنے ٹی وی پروگرام کئے گئے؟ "سب سے بڑھ کر صوبے کا وزیراعلٰی جسے دن رات طعنے ملتے کہ وہ سسٹم بنانے کے لئے کیا کررہا اسے دہائیوں سے چلا آرہے کرپٹ نظام کو ختم کرنے کا کریڈٹ ملا؟ کیا بےہنگم انداز میں چیختے چلاتے اینکروں نے چیخ چیخ کر شہباز شریف کی تعریف کی؟ کیا کبھی سوشل میڈیا پر بیٹھے ناقدین نے #ThankYouShehbazSharif کا ٹرینڈ بنایا؟ بلکہ  الٹا چیخ چیخ کر جھوٹ بولا جاتا ہے کہ ابھی کرپٹ پٹوار خانے ختم کرنے کے لئے کچھ نہیں ہورہا"؟
حال میں آئی گیلپ سروے کی رپورٹ کے مطابق ہمارے ٹی وی ٹاک شوز کا بیشتر حصہ سیاست/سیکیورٹی امور پر روشنی ڈالتے گزر جاتا تعلیم، صحت، گورنس، خارجہ پالیسی جیسے سنجیدہ موضوعات پر 20% ٹاک شوز بھی نہیں ہوتے؟ کیا ہماری اسٹیٹ کا ایک ستون میڈیا اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھا رہا ہے؟ 

Sunday, 2 August 2015

PP 100 Facts

Recently concluded by election in PP 100 was very interesting and unique, the seat was vacated due to murder of Local MPA Rana Shamshad with his son and a family friend. The murder caused a rift between local Jatt clan and Rajput Clan, the election became a local battle of two very powerful clans. Ch Sarwar played a very vital role as well by luring N league supporter Ahsan Virk and PPP NA candidate in last elections Zulifiqar Bhindar into PTI, so technically knocking off N league Jatt voters in the constituency. The PTI candidate ran a fierce campaign as well. The N candidate thinking it an easy ride started the campaign a bit late but soon realized it's not going to be easy to retain the seat despite backed by huge sympathy vote after tragic Shamshad Khan murder with his young son who was about to leave for UK for his studies.
The Rajput clan domination of NA/PA constituency of the area run over decades, In 2008 Zulifiqar Bhindar won the PA seat while running on PPP ticket but then Shamshad Khan was denied N league ticket, he ran on Q League ticket and was beaten badly. This time despite having sympathy vote, it became a tough ride as it became a personal battle of two Bradaris, a close fight was expected but in the end Akhtar Khan of N league won comfortably by 20k vote margin but PTI almost doubled it's vote bank purely because of Jatt vote bank.
As we locals were expecting a close fight, it stunned many as in the end it turned out to be a one horse race, N league winning big in the city while PTI candidate getting good bradari vote from villages. It was even more shocking for us as PTI known to have urban base but they lost badly in the city. I ran a little survey in my hospital to know the cause of PTI thumping defeat and N league comfortable win. Asked my patients with ink mark on their thumb, whom they voted and why they voted a particularly party. . Here are the results of little survey.
Total Votes! 167
N league! 100 votes
PTI! 61 votes
PPP! 6 votes
N league vote Division!
Party Vote! 60 votes
Rajput clan! 27 votes
Sympathy votes! 13
PTI Vote Division!
Party vote! 17 votes
Jatt Clan Vote! 44 votes
PPP Vote Division!
PPP Votes! 1 votes
Bradari Vote! 5 votes
Astonishing stats, as it was common belief that PTI will secure more party votes from the city but instead N league won more party votes in the city..
when asked why you voted for N league. . The Answer was even more surprising..
 
I ) Improvement in Loadshedding In Ramzan
2) City infrastructure including newly built drainage system and roads of the city, which was centrally controlled by CM Office and inspection team deputed which continuously monitor the project
3) The small retailers and businessmen happy with their sales
4) No other option available
 
Why you didn't vote for PTI
 
1) IK failed to deliver on his promises, he organised a failed Dharna, tried to sabotage our businesses.
2) Lost his case in Judicial Commission
3) Disappointed Youth
4) Can't run the country
 
N league may learn lesson or two from PP 100 where despite huge alliance formed against them, still they won easily. They need to break monopoly of families, ruling for decades, they need to bring new leadership in upcoming local body elections, give tickets to new families/clans, so their party can expand even further and grow on strong footings as their opponents facing existential threat it's high time N league can cash on their popularity to broaden their vote bank and party cadder, otherwise they may face tough competition in 2018 GE as few of their local candidates are hated among masses!