رات چند ہفتے پہلے ہونے والا ایک ٹاک شو دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں خواجہ آصف اپنی حکومت کی کارگردگی کا تذکرہ کررہے تھے کس طرح لوڈشیڈنگ کم کی دہشتگردی کی لعنت پر کافی حد تک قابو پایا شہر شہر میٹرو اور موٹر وے بنا رہے ہیں اچانک اینکر کاشف عباسی نے کہا کہ خواجہ صاحب یہ تو کوئی بھی کرسکتا تھا آپ نے پٹوار خانوں کا کیا کیا غریب رل گیا ہے تباہ ہوگیا ہے کیونکہ حکومت کی اصل ذمہ داری تو ریفارم ایجنڈا ہوتی ہے خواجہ صاحب حیران پریشان کاشف عباسی کی شکل دیکھنا شروع ہوگئے فرمانے لگے آپ بجا فرما رہے ہمیں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے میں یہ پروگرام دیکھتے ہوئے حیران پریشان بیٹھا تھا کیونکہ تین دن پہلے ہی میرے لندن پلٹ کزن نے ایک حیران کن واقعہ سنایا یاد رہے یہ لندن پلٹ کزن عمران خان کا شیدائی تھا ہوا کچھ یوں کہ بھائی صاحب کے والد فوت ہوگئے اب انہیں اپنی آبائی جائداد کے کاغذ چائیے تھے بڑے پریشان لندن سے واپس آئے کہ اب کیا بنے گا سفارشیں ڈھونڈ رہے تھے کیونکہ موصوف کے والد صاحب تو اب رہے نہیں تھے جو سارا کام سھنبالتے تھے ساری فیملی سالوں سے منڈی بہاؤالدین چھوڑ کر لندن اور لاہور شفٹ ہوگئی تھی جناب کے ذہن میں وہی پرانے پٹوار خانے اور بھیانک پٹواری تھے جو بات کرنے کے بھی پیسے لیتے تھے مہینوں کام کو لٹکانے کے ماہر تھے موصوف ان سب باتوں پر یقین کرتے تھے جو وہ میڈیا اور کپتان کی تقریروں میں سنتے تھے یا انصاف ویب سائٹ ان تک پہنچاتی تھی ڈرے سہمے کزن صاحب منڈی بہاؤالدین پہنچے پہلے تو زمین سہولت مرکز دیکھ کر حیران رہ گئے اندر پہنچے تو کاونٹر پر اپنا مدا بیان کیا تو ان کو فرد والی لائن کی طرف بھیج دیا گیا جہاں جناب نے لائن میں لگ کر لگ بھگ سو ڈیڑھ سو روپیہ خرچ کرکے ٹوکن حاصل کیا انہیں بتایا گیا کہ 2-3 گھنٹہ انتظار کریں اس کے بعد آپ کو کمپیوٹرائزڈ فرد مل جائے گی جناب حیران پریشان سکتے کی کیفیت میں انتظار گاہ میں بیٹھ گئے سوچوں میں گم وہاں پڑی اخبار کا مطالعہ کرنے لگے قریبا دو گھنٹے بعد ان کو دئیے گئے ٹوکن کا نمبر سکرین پر چلنا شروع ہوگیا موصوف نے اپنی زمینوں کی فرد وصول کی اور حیران پریشان منڈی بہاؤالدین سے لوٹ آئے چند دن بعد گھر بیٹھے جب سارے جوڈیشل کمیشن میں ہار کے بعد تحریک انصاف کے سپورٹر کزنز کی کلاس لے رہے تھے تو انہوں نے پٹوار خانوں کی کرپشن کا ذکر شروع کردیا میرا یہ والا کزن جو ان کا لیڈر تھا اور آج بالکل خاموش سوچوں میں گم تھا اچانک پھٹ پڑا اپنے بیگ سے اپنی فرد نکال کر بولا کہ یہ ہے اصل تبدیلی صرف چند گھنٹوں میں مجھے میری زمین کی تفصیلات دے دی گئیں بغیر کسی رشوت اور خواری کے بلکہ چیف منسٹر کی پہلے Robocall آئی پھر SMS آیا جس میں مجھ سے پوچھا گیا کہ مجھ سے عملے نے رشوت تو طلب نہیں کی میں نے SMS سے بتایا کہ میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا گیا
اس پروگرام اور واقعہ کو سننے کے بعد میں نے یہ بلاگ لکھنے کا فیصلہ کیا تاکہ آپ لوگوں تک تفصیلات پہنچا سکوں جو پاکستانی اینکرز کو تو چھوڑیں بلکہ حکومتی وزرا تک کو نہیں پتہ جو مختلف ٹاک شوز میں جاتے ہیں صوبہ پنجاب میں پٹوار خانوں کو کمپیوٹرائزڈ کرنے کا سلسلہ 2008 میں شروع کیا گیا فیصلہ کیا گیا کہ پرانے اور دقیانوسی نظام سے نجات حاصل کی جائے جو انگریز دور سے چلا آرہا ہے جو پنجاب میں کام کرتے آٹھ ہزار پٹواریوں کو تو کروڑ پتی بنا گیا لیکن دو کروڑ عوام جو پنجاب میں پراپرٹی کے مالک ہیں ان کو علاقے کے سیاستدانوں کا محتاج کرتا تھا جس نے ان کی عزت نفس کو ختم کردیا اس نظام کو ختم کرنے میں بےشمار رکاوٹیں آئیں سب سے بڑی رکاوٹ لوکل بااثر سیاستدانوں کے مافیا سے آئی لیکن چیف منسٹر شہباز شریف نے اس کا بیڑا اٹھایا کسی سفارش کو نہ مانا حالانکہ اس پروگرام کو Controversial بنانے کی کوشش کی گئی پٹواریوں نے لاتعداد بہانے بنائے کئی جگہ پر ریکارڈ غائب کردیا گیا معاملات عدالتوں تک گئے لیکن یہ پروگرام چلتا گیا آج الحمداللہ پنجاب کے 31 اضلاع کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کرلیا گیا ہے پنجاب کی 143 تحصیلوں تک اس کا دائرہ کار پھیلا دیا گیا ہے 90 سے زیادہ سہولت سنٹر قائم کردیئے گئے ہیں جو تمام کے تمام آپس میں connected ہیں highly trained اور skilled staff ان سنٹرز پر کام کررہا ہے ان کو میرٹ پر بھرتی کیا گیا ہے مختلف اخباروں میں ان کی بھرتی کے کئے اشتہارات شائع کئے جاتے ہیں یہ سہولت سنٹرز اس سال دسمبر تک پنجاب کے 36 اضلاع تک پھیل جائیں گے ان سہولت سنٹرز کا نام Punjab Land Record Management Information System ہے ابھی ان سہولت مراکز اور پٹوار سسٹم کو ساتھ ساتھ چلایا جارہا ہے تاکہ سسٹم کے تمام مسائل سے چھٹکارا حاصل ہونے تک لوگوں کو پریشانی نہ ہو
بات یہاں ختم نہیں ہوتی پورے پنجاب میں اس وقت Citizen Feedback System نامی پروگرام کام کررہا ہے جو پنجاب کے مختلف محکموں میں ہونے والی کرپشن پر نظر رکھتا ہے اس سسٹم کی خوبی یہ ہے کہ محکموں میں جانے والے لوگ خود گواہ ہوتے ہیں کہ ان کے ساتھ عملے نے کیسا رویہ رکھا محکمے میں جانے کے بعد چیف منسٹر کی آواز میں ایک Robocall آتی ہے جس میں ان سے محکمانہ کرپشن اور عملے کے رویے کا پوچھا جاتا ہے پھر انہیں SMS موصول ہوتا کہ کہیں ان سے رشوت یا پھر کوئی برا برتاو تو نہیں برتا گیا اس سسٹم کا دائرہ کار آہستہ آہستہ تمام اداروں تک پھیل رہا ہے اب تک تقریبا 7.3 ملین Transection ہوئیں تقریبا چھ لاکھ لوگوں کو Feedback calls جاچکی ہیں تقریبا 21 لاکھ لوگوں کو SMS جا چکے ہیں صرف چھ ماہ میں تقریبا 800 کے قریب کرپشن کے کیس لوکل DCO سطح پر حل ہوچکے اس پروگرام کو ورلڈ بنک نے اپنے Thirteen Most Innovative Programs میں شامل کیا اس پروگرام کو فنڈ بھی کیا اب پورے پنجاب میں پھیل چکا ہے پنجاب حکومت نے اس کا اپنا فنڈ قائم کردیا ہے دنیا میں اتنا مقبول ہورہا ہے کہ ورلڈ بنک نے ابھی اس پروگرام کو دوسرے ملکوں میں فنڈ کرنا شروع کیا ہے اسی پروگرام کا دائرہ اختیار وفاقی حکومت نے NADRA اور Passport کے محکموں تک پھیلا دیا ہے خیبرپختنخواہ نے بھی اسے اپنے صوبے میں شروع کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے ورلڈ بنک کے سروے کے مطابق لوگوں کی بڑی تعداد اس پروگرام کی افادیت سے بہت خوش ہے یہ Phone Based سروے جس میں 20 ہزار لوگوں سے اس سسٹم کی افادیت پر سوال کئے گئے 53% لوگوں نے کہا کہ سروس بہتر ہوئی 73% نے کہا کہ اسٹاف کے رویے میں بہتری آئی 70% سے زائد نے کہا کہ مستقبل میں مزید بہتری آئے گی 33% نے کہا کہ کرپشن میں بھی کمی آئی
کیا کبھی آپ نے میڈیا میں ان انقلابی اقدامات پر پروگرام دیکھے کیا کبھی زبیر بھٹی جیسے افسران جنہوں نے Citizen Feedback Model کو جھنگ سے شروع کیا جسے اب دنیا ایک بہترین ماڈل قرار دے رہی ہے انہیں میڈیا پر پزیرائی ملی؟ کیا ان سب DCO صاحبان کو جنہوں نے اسے کامیاب بنانے کے کئے دن رات ایک کردیا ان کا نام کبھی میڈیا پر سنا؟ کیا ڈاکٹر عمر سیف جیسے لوگ جنہوں نے پٹوار خانوں اور Citizen Feedback جیسے منصوبوں کو کمپیوٹرائزڈ کیا ان کو میڈیا پر کوریج دیکھی؟ وہ تمام پنجاب ٹیکنالوجی بورڈ کے افسران جو ڈاکٹر عمر سیف کی قیادت میں دن رات ایک کررہے ان سسٹمز کو بنانے اور کامیابی سے چلانے کے لئے ان پر کتنے ٹی وی پروگرام کئے گئے؟ "سب سے بڑھ کر صوبے کا وزیراعلٰی جسے دن رات طعنے ملتے کہ وہ سسٹم بنانے کے لئے کیا کررہا اسے دہائیوں سے چلا آرہے کرپٹ نظام کو ختم کرنے کا کریڈٹ ملا؟ کیا بےہنگم انداز میں چیختے چلاتے اینکروں نے چیخ چیخ کر شہباز شریف کی تعریف کی؟ کیا کبھی سوشل میڈیا پر بیٹھے ناقدین نے #ThankYouShehbazSharif کا ٹرینڈ بنایا؟ بلکہ الٹا چیخ چیخ کر جھوٹ بولا جاتا ہے کہ ابھی کرپٹ پٹوار خانے ختم کرنے کے لئے کچھ نہیں ہورہا"؟
حال میں آئی گیلپ سروے کی رپورٹ کے مطابق ہمارے ٹی وی ٹاک شوز کا بیشتر حصہ سیاست/سیکیورٹی امور پر روشنی ڈالتے گزر جاتا تعلیم، صحت، گورنس، خارجہ پالیسی جیسے سنجیدہ موضوعات پر 20% ٹاک شوز بھی نہیں ہوتے؟ کیا ہماری اسٹیٹ کا ایک ستون میڈیا اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھا رہا ہے؟
This comment has been removed by the author.
ReplyDeleteThanks Dr Sb For highlighting the Betterment in the Province. Keep Rocking
ReplyDelete#ThankYouShehbazSharif
hum ne kab inkar kiya hai jo hakoomat acha kaam krti hai use hum sarahte han, acha ik bat batain, hum man lete han k imran khan sab is kabil ni hain k apni parti ko sahi chala sakain, hakoomat me aa sakain ya use chala sakain, chalain man lete han k nawaz shareef sab bohat ache saystdan hain, bohat acha nizam chala rehe han, aisa nizam jis me gareeb gareeb tar hota ja rha hai ur omeer omeer tar, aisa nizam jis me batain zayda ur kaam kam, aisa nizam jis me tax per tax lagaya ja rha hai ur us k badle me return 25% diya ja rha hai, ik aisa nizam chala rahe han jis me apne jawano ko tu sahadtain mil ri hain apni awam ko golyo se chalni karne wale mulk ko MANGO bijwaie ja re han phol bijwai ja re han, ur wo phir b akar rha hai ur hum chup hai, ik aisa nizam jidhar sirf hakoomat me rehne k liye kaam kiya ja rha ho awam ya mulk ko bhtr banane k liye ni,
ReplyDeletehum ne kab inkar kiya k hakoomat ne kuch ni kiya MA tu bus itna kehta hoon k is hakoomat ko jitna deliver krna tha krna chaye tha wo ni kr ri, kiu k ye hakoom isi team k sath kitni bar iqtdar me aayi ur bohat arsa iqtidar me rehi beshak mudat pori ni ki par is ko pata k kiya kamzori ur kiya khobi, Kiu ye hakomat asif ali zardari ki policy par chalna soro ho g hai kiu ye hakoomat asif ali zardri ki soch ko apna chuki hai, kiu gareeb ko gareeb tar krne k liye tax pr tax laga ri hai