Sunday, 8 November 2015

بلدیاتی الیکشن اور تبدیلی

پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی الیکشن کا پہلا مرحلہ  اختتام پذیر ہوا ن لیگ نے پنجاب اور پیپلزپارٹی نے سندھ کو سویپ کیا جبکہ تبدیلی صرف جلسے جلوسوں اور ٹاک شوز تک محدود رہی یہ کوئی انہونی بات نہیں تھی کہ نتائج ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے حق میں آئے جب سے کپتان صاحب دھرنے سے اٹھے ہیں تقریبا 16 ضمنی الیکشن ہار چکے ہیں کنٹونمنٹ بورڈ، گلگت بلتستان کے الیکشن ہار چکے  خیبرپختنخواہ میں بھی بلدیاتی الیکشن میں اپوزیشن پارٹیاں کافی اضلاع میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئیں جو تحریک انصاف نے جنرل الیکشن میں جیتے تحریک انصاف صرف 10 اضلاع میں حکومت قائم کرسکی ہری پور کا ضمنی الیکشن بھی پچاس ہزار ووٹوں سے ہار گئے لیکن کپتان کو داد دینی پڑے گی وہ اب تک اپنی بات پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ ان کے ساتھ دھاندلی ہوگئی ہے

چلیں اب ذکر کرتے ہیں پنجاب کے دوسرے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات کا جہاں پہلے مرحلے کی طرح ن لیگ مقابلہ ن لیگ ہورہا ہے پھر تیسرے نمبر پر پی ٹی آئی میدان میں ہے آپ حیران ہوں گے کہ شائد میں پاگل ہوگیا ہوں کیسی بہکی بہکی باتیں کررہا ہوں ہوا کچھ یوں کہ گزشتہ دس دن سے  گوجرانوالہ ڈسٹرکٹ کی مختلف یونین کونسل میں جانے کا اتفاق ہوا کافی لوگوں سے بات چیت رہی کافی امیدواروں کی کمپین میں حصہ لیا تب جاکر اندازہ ہوا کہ ن لیگ انتہائی مہارت سے بلدیاتی الیکشن لڑ رہی ہے زیادہ تر شہری حلقے میں ن لیگ نے امیدوار شیر کے نشان پر کھڑے کئے ہیں کچھ جگہوں پر اپنے دوسرے گروپس کو بالٹی کے نشان پر الیکشن لڑنے کی اجازت دی ہے دیہاتی حلقوں میں جہاں دھڑے بندی کی سیاست ہوتی ہے برادری کی سیاست کا زور ہوتا وہاں کسی کو شیر کا الاٹ کیا گیا لیکن وہاں کئی یونین کونسل کو اوپن چھوڑ دیا گیا جہاں بالٹی، ہینگر، پریشر کوکر وغیرہ کے نشان سے ن لیگ کے امیدوار میدان میں اترے ہیں دونوں دھڑے نوازشریف اور شہباز شریف کی تصاویر کا استعمال کررہے ہیں دونوں پینلز کی قیادت لوکل MPA/MNA کررہے ہیں اس طرح انتہائی مہارت سے ن لیگ نے دھڑے بندی کی سیاست کو قائم رکھا ہے اپنے حمائتی لوکل سیاستدانوں کو پارٹی بدلنے بھی نہیں دی بلکہ سب کو ایک Level Playing Field مہیا کردی ہے کہ اپنا اپنا زور لگا لو جو بھی پینل جیتے گا اس کا چئیرمین شپ مل جائے گی ضلعی سطح پر جو پینل اکثریت میں ہوگا انہیں میئر شپ دے دی جائے گی اسطرح ایک سخت مقابلہ کی فضاء قائم کردی گئی انتخابی دنگل کی تیاری زوروشور سے جاری ہے لگتا یوں ہے کہ ہر جگہ یا تو شیر جیتے گا یا شیر کا حمائت یافتہ آذاد امیدوار جیتے گا

اب آتے ہیں تحریک انصاف کے امیدواروں کی طرف وہاں تو عجیب ہی کھچڑی پکا دی گئی ہے چوہدری سرور نے تمام لوٹوں کو پارٹی میں شامل کرلیا ہے اکثر جگہوں پر تنظیم بالکل ختم ہوگئی ہے یا تحریک انصاف کے دھڑے ایک دوسرے کی مخالفت میں ن لیگ کے آذاد امیدواروں کی سپورٹ کرتے دکھائی دیتے ہیں یا پھر خود پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے ہی امیدوار کے خلاف ہی الیکشن لڑ رہے ہیں اس دھڑے بندی کی وجہ سے ان کی پوزیشن انتہائی کمزور دکھائی دے رہی ہے کئی جگہوں پر تو امیدوار ہی کھڑا نہیں کئے گئے اگر دوسرے مرحلے کا تحریک انصاف کی حوالے سے احاطہ کیا جائے تو رزلٹ پہلے مرحلے سے مختلف نہیں ہوگا

اب آپ سب سوچ رہے ہوں گے کہ میں نے پیپلزپارٹی کا ذکر تو کیا ہی نہیں تو ان کی حالت یہ ہے کہ زیادہ تر پارٹی تحریک انصاف میں ضم ہوگئی ہے جو بچے ہیں وہ آذاد لڑ رہے ہیں کچھ جگہ پر چند جیالے آپ کو مقابلہ کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن وہ بھی معجزے کے انتظار میں ہیں

ن لیگ نے انتہائی مہارت سے بساط بچائی ہے اس بلدیاتی الیکشن کے بعد ان کا پنجاب میں hold بہت مضبوط اور گہرا ہوجائے گا 2018 کے الیکشن میں وارڈ سطح پر ان کے دھڑے مضبوط ہوجائیں گے اگر تحریک انصاف اس طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہی لوٹوں اور چلے ہوئے کارتوسوں پر بھروسہ کرتی رہی تو 2018 میں ایک اور دھرنے کے لئے اپنے آپ کو تیار کرے کیونکہ بہت بڑی دھاندلی ہونے جارہی ہے