Tuesday, 23 December 2014

امید سحر

پشاور سانحہ میں ایک سو پچاس کے قریب لوگ شہید ہوگئے جن میں ایک سو بتیس سے زائد بچے تھے یہ پاکستان کیا دنیا کی تاریخ کے خوفناک واقعات میں سے ایک تھا خون میں لت پت پڑی شہدا کی لاشوں نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہر آنکھ نم اور ہر چہرہ سوگوار ہے شائد ہی کوئی شخص ہو جو اس دل دھلا دینے والے واقعے پر دھاڑیں مار مار نہیں رویا لیکن اب جوں جوں دن گزر رہے ہیں پورے ملک کو غم اور غصے کی لہر نے گرفت میں لے لیا ہے شہر شہر دہشتگردوں کے خلاف مظاہرے ہورہے ہیں ان کو عبرتناک سزا دینے کے مطالبات کئے جارہے ہیں لوگ اپنی سیاست، ذات برادی، مسلک بھول کر اس واقعہ کی مذمت کررہے ہیں
 
سوال تو یہ ہے کہ پہلے بھی کئی دہشتگردی کے واقعات ہوئے کوئٹہ میں ھزارہ وال کو متعدد بار دہشتگردی کا نشانہ بنایا گیا مون مارکیٹ جیسے دل دھلا دینے والے سانحات ہوئے ابھی چند ہفتے پہلے واہگہ بارڈر سانحہ ہوا کراچی میں روزانہ درجنوں لوگ اپنی جانوں سے جاتے ہیں پچاس ہزار کے قریب سولین اس دہشتگردی کی جنگ میں جان کی بازی ہار گئے پانچ ہزار سے زائد فوجی شہید ہوچکے آخر کیا چیز ایسی ہوئی کہ ان بچوں کی شہادت نے ساری قوم کو یکجا کردیا؟ لاشیں تو پہلے بھی بےشمار اٹھ چکیں پھر آخر کیا ہوا؟  اس کی وضاحت شائد ہی ممکن ہو لیکن ان معصوم مسکراہٹوں میں کچھ تو فریاد تھی کہ پوری قوم متحد ہوگئی ان کے خون میں ڈوبے لاشے پوری قوم کو متحد اور ایک نیا عزم دے گئے؟ ایک 'امید سحر' دے گئے کہ شائد شائد اب وہ وقت آگیا ہے کہ ہمارا ملک ایک فیصلہ کن معرکے کی طرف بڑھ رہا ہے؟
 
عمران خان جس نے اس واقعہ کے فورا بعد اپنا دھرنا ختم کرنے کا اعلان کردیا چاہے وجہ کچھ بھی رہی ہو چاہے کسی نے کتنا ہی پریشر ڈالا ہو لیکن اپنے پولیٹکل gains کی اس طرح قربانی دینے سے بلاشبہ وہ ایک بڑے لیڈر بن کر ابھرے ہیں پھر اپنے برسوں پرانے Narrative کو خیرآباد کہنا جس میں طالبان سے مذاکرات اور صرف مذاکرات کا فلسفہ تھا لیکن ان بچوں کی شہادت نے عمران خان کو سب کچھ بدلنے پر مجبور کردیا پہلی دفعہ عمران خان اور ان کی پارٹی نے کھل کر دہشتگردی کی ناصرف مذمت کی بلکہ اپنے صوبے خیبرپختونخوان میں اس سے نمٹنے کا پلان بھی دیا یہ ایک بہت بڑی تبدیلی ہے کیونکہ میرا ماننا ہمیشہ سے رہا ہے کہ جب تک ن لیگ اور پی ٹی آئی اس جنگ کو اپنی جنگ نہیں سمجھیں گی یہ جنگ جیتی نہیں جاسکتی اس کی دو وجوہات ہیں 1) دونوں جماعتیں بلاشبہ پاکستان کی مقبول ترین جماعتیں ہیں رائے عامہ ہموار کرنا ان کے لئے بہت آسان ہے 2) دائیں بازو سے قریب ہونے کی وجہ سے ان کا رائے عامہ ہموار کرنا اور بھی آسان ہوجاتا ہے کیونکہ ہمارے ملک میں بائیں بازو کی جماعتوں کی اکثریت اور ووٹ بنک بہت محدود ہوگیا ہے وہ جتنی بھی کوشش کرلیں رائے عامہ ہموار نہیں کرسکتیں
 
جنرل راحیل شریف نے جب فوج کی کمان سنھبالی تو بڑے عرصے بعد کسی جنرل کا اتنا کلئیر اور فوکس وژن دیکھا چاہے وہ دھرنوں کے وقت جہموریت کے ساتھ کھڑا ہونا ہو یا پھر دہشتگردوں کے خلاف بلاتفریق آپریشن ہو اچھے برے تمام دہشتگردوں کی تفریق ختم کرنے میں کلیدی کردار جنرل راحیل شریف کا ہے آپریشن ضرب عضب اس کی ایک کڑی ہے یہ وہ آپریشن ہے جس کو کرنے میں تمام جنریلوں کے پر جلتے تھے حالانکہ جنرل کیانی یہ کہتے رہے کہ ہمیں خطرہ اندرونی ہے کوئی اچھے برے طالبان نہیں لیکن آپریشن کرنے کی ہمت نہ کرپائے لیکن راحیل شریف نے وہ کر دکھایا اس بات کا کریڈٹ پرائم منسٹر کو بھی جاتا ہے کہ جنہوں نے میرٹ پر ایک true فوجی کو فوج کی کمان دی جو ایکشن پر believe کرتا ہے جو دہشتگردی کے بارے میں Zero Tolerance رکھتا ہے جو اپنے ہمسایوں سے اچھے تعلقات کا خواہ ہے شروع میں تھوڑی مشکلات ہوئی لیکن جب سے انہوں نے اپنی ٹیم کو حتمی شکل دی ہے ان کا اعتماد دیکھنے کے لائق ہے
 
اب آجائیں حکومت کی طرف جو پیچھلے ڈیڈھ سال سے ایک کنفیوژن کا شکار تھی کبھی مذاکرات اور کبھی جنگ کی کشمکش میں تھی اب چند ہفتے پہلے مشیر خارجہ صاحب اچھے اور برے طالبان کی تمیز نہیں کرپارہے تھے چوہدری نثار صاحب جنون کی حد تک مذاکرات کے حامی تھے سوائے خواجہ آصف اور دیگر چند وزراء کے تمام شش و پنج کا شکار تھے لاکھوں IDPs سڑکوں پر پڑے ہوئے تھے لیکن حکومت اچھے اور برے طالبان کی تشریح نہیں کر پارہی تھی پھر پشاور دہشتگردی نے سب کچھ بدل دیا وزیراعظم خود پرائم منسٹر ہاوس سے نکلے اچھے اور برے طالبان کا فرق مٹا دیا سب کے خلاف آپریشن کا اعلان کیا پہلی دفعہ ہزارہ، واہگہ، مون مارکیٹ، درباروں، مسجدوں، فوجی املاک پر حملہ کرنے والوں کا نام لیا گیا اور ان واقعات میں شہید سولین اور فوجیوں کے قاتلوں کو کیفرکردار پہنچانے کے عزم کا اظہار کیا گیا تمام جماعتیں مل کر بیٹھیں سب نے دہشتگردی کی مذمت کی اور سخت کاروائ کا مطالبہ کیا پہلی دفعہ وزیراعظم نے اس جنگ کی سرپرستی کا عزم کیا اس جنگ کی کمان سنبھالی ایک پارلیمانی کمیٹی بنائی اس کی معاونت کے لئے ملک بھر سے بہترین دماغوں کو اکٹھا کیا گیا ایک ہفتے میں سفارشات لانے کا کہا گیا وزیراعظم دن رات فوجی اور سولین قیادت سے ملاقاتیں کررہے ہیں میراتھن سیشن ہورہے ہیں ہر روز دہشتگردی ختم کرنے کے عزم کا اظہار کیا جاتا ہے ن لیگ کے زیر اہتمام پنجاب کے مختلف شہروں میں ریلیاں نکالی جارہی ہیں وزراء ٹی وی پر آکر کھل کر دہشتگردی کے خلاف بول رہے ہیں اب سب کہتے ہیں کہ یہ کمیٹیاں پہلے بھی بنتی رہیں لیکن ان سے نکلنا کچھ بھی نہیں لیکن میں کہتا ہوں یہ سب کچھ پہلے کبھی نہیں ہوا اس کی چند وجوہات آپ لوگوں کے گوش گزار ہیں 1) اچھے اور برے طالبان کی تمیز ختم کی گئی سب کے خلاف آپریشن کا فیصلہ کیا گیا. 2) پاکستان کے تمام شہروں میں آپریشن کلین اپ شروع کرنے کی بات کی گئی خاص کرکے پنجاب جس کے بارے میں ہمیشہ سوالات اٹھائے جاتے رہے کہ جہادی تنظیموں سے ہاتھ ہولا رکھا جاتا ہے فرقہ واریت پھیلانے والی تنظیموں پر هاتھ نہیں ڈالا جاتا ہے اب خبریں آرہی ہیں کہ تمام شہروں میں آپریشن شروع کیا جارہا ہے بلکہ کافی لوگوں کو گرفتار بھی کرنا شروع کردیا گیا ضلعی ایڈمنسٹریشن نے دفاتر کے باہر بڑے بڑے بینرز آویزاں کردئے ہیں جو "طالبان کا یار ہے وہ غدار ہے".  3) پھانسی کی سزا سے پابندی ختم کردی گئی ہے میں جانتا ہوں اس سے کچھ نہیں ہوگا کیونکہ ایک خودکش حملہ آور کو اس سے ڈرایا نہیں جاسکتا لیکن اس کو لے کر ملک میں بہت کنفیوژن تھی کہ حکمران کمزور ہیں ڈر گئے ہیں دوسرا ہر معاشرہ ایک قانون اور ضابطے سے چلتا ہے اگر کسی کو آپ کے قانونی نظام نے سزا دی ہے تو اس پر عمل ہونا چائیے ان پھانسیوں سے ان دہشتگردوں کی مدد کرنے والوں میں ایک ڈر اور خوف بھی آتا ہے heinous crime کی شرح میں کمی بھی آتی ہے جیسا کے حالیہ رپورٹ میں بھی بتایا گیا ہے گزشتہ ہفتے میں پنجاب میں جرائم میں واضح کمی ہے خیر اس کی اور بھی کئی وجوہات ہیں. 4) پہلی دفعہ پاکستان میں نفرت اور شر پھیلانے والوں کے خلاف کھل کر بات ہونے لگی کیونکہ ریاست اب ان کے خلاف بات کررہی ہے آپ نے پاکستان کی تاریخ میں کب دیکھا کہ "لال مسجد جیسی جگہوں کے باہر سول سوسائیٹی نے مظاہرے کئے ہوں؟  کب نفرت پھیلانے والوں کے خلاف FIR رجسٹر ہوئی ہوں؟ کب دہشتگردوں سے ہمدردی رکھنے والوں کا گھیرا اس طرح تنگ ہوا ہو؟ کب پڑھے لکھے نوجوانوں نے اتنی ہمت دکھائی ہو"؟. 5) کب ریاستی اداروں نے اچھے اور برے طالبان میں تمیز ختم کی ہو ان کے خلاف ہر جگہ آپریشن شروع کئے ہوں؟  Deep State Doctrine کو ختم کرنے کی باتیں ہورہی ہوں؟  اپنے Strategic Assets سے کنارا کشی اختیار کی جارہی ہو؟. 6) وزیراعظم اور آرمی چیف ایک ہی صفحے ہر نظر آرہے ہوں؟ دونوں جانب سے ایک ہی طرح کے بیانات اور عزم کا اظہار کیا جارہا ہو؟ روز ملاقاتوں میں پارلیمانی ایکشن کمیٹی کی سفارشات کو حتمی شکل دینے کے لئے مشاورت ہوتی ہے.  7) تمام مذہبی جماعتیں ایک ہی پیج پر ہیں حتکہ مولانا فضل الرحمان اور سراج الحق صاحب جیسے لیڈر جو ماضی میں مذاکرات اور کنفیوژن پھیلانے میں سب سے آگے تھے لیکن اب عوامی دباؤ اور دل دھلا دینے والی شہادتوں کے بعد آپریشن کی حمائت پر مجبور ہوگئے ہیں
 
ہاں یہ کہنا بجا ہوگا کہ ہم نے اس آفت سے نمٹنے میں بہت دیر کردی ہزاروں شہادتوں اور اربوں ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا لیکن وہ کہتے ہیں کہ قوموں کی زندگی میں ایسے لمحات آتے ہیں جو پوری تاریخ بدل دیتے ہیں شائد ان بچوں کی معصوم مسکراہٹیں اور آہیں اس قوم اور اس کی لیڈرشپ کو جھنجوڑ گئی ہیں اب حکومت کو چائیے اس جنگ کے خلاف لیڈرشپ فراہم کرے اس کو فرقہ واریت کا رنگ دینے سے بچایا جائے اس کو پاکستان کی بقا کی جنگ بنایا جائے حکمرانوں کو ان معصوم بچوں نے اپنی شہادت سے تاریخ میں اپنا نام رقم کرنے کا موقعہ دیا ہے اگر اب بھی یہ اس موقعے سے فائدہ نہ اٹھا سکے تو تاریخ ان کو کبھی معاف نہیں کرے گی "بی بی سی کے صحافی محمد حنیف نے کیا خوب لکھا تھا کہ ان بچوں کو کسی دعا کی ضرورت نہیں ہے ہاں حکمران اور فوجی قیادت اپنے لئے دعا ضرور کرے اور جب دعا کے لئے ہاتھ اٹھائیں تو اپنے ہاتھوں پر لگے خون کو دیکھیں" اس لئے اب پاکستانی قوم کو ناصرف متحد رہنا ہوگا بلکہ حکمرانوں اور فوجی قیادت کا احتساب بھی کرنا ہوگا تاکہ پھر صرف فائلوں کا پیٹ نہ بھرا جائے

1 comment:

  1. An excellent review of the situation that prevails these days in Pakistan. Dr. Sahib you have done the right job and offered a perfectly neutral opinion which is seldom done in our country. Everyone amongst us is having an opinion and forces others to accept his opinion. The tragic incident of 16th December has in this context been a very strong catalyst which has forced Pakistanis from all walks of life to join hands in fighting terrorism.

    I pray to Allah Almighty that this unity among our politicians, among our religious parties, among our scholars, among our civil society and above all the serious and sincere intent of our armed forces to root out this menace from the soil of Pakistan remains a regular agenda so that we have a secure, peaceful Pakistan where children of Pakistan go to their school without any fear from some Satanic individuals who can do to our lovely sweet fragrating flowers what the hyenas of the TTP did to 134 school boys on 16.Dec. 2014.

    Nayyar
    http://wondersofpakistan.com/

    ReplyDelete