Thursday, 30 April 2015
Friday, 17 April 2015
لنڈے کے دانشور
یہ کہانی تب شروع ہوتی ہے جب عمران خان اپنے لاکھ موٹر سائیکل کے قافلے سمیت اسلام آباد پر یلغار کے لئے نکلا شفقت محمود صاحب روات پل پر موٹر سائیکلوں کی گنتی کے لئے موجود تھے مختلف چینلز پر بیٹھے حوالدار اینکر ایک سما۶ باندھ دیتے ہیں انقلاب کی نوید سنا دی جاتی ہے جشن کی تیاری شروع کردی جاتی ہے قوم کو ایک نئی صبح نو کی نوید دی جاتی ہے کپتان فتح کے خمار سے سرشار اسلام آباد کی طرف رواں دواں ہوتا ہے حوالدار اینکر حکومتی وزیروں اور مشیروں کو مختلف چینلوں پر رگید رہے ہوتے ہیں تب چند 'لنڈے کے دانشور' سوشل میڈیا پر نمودار ہوتے ہیں جو اس انقلاب کا اصل چہرہ قوم کو دکھانے کا بیڑا اٹھا لیتے ہیں حتکہ چند ایک نے تو الیکشن سے پہلے اپنے بلاگز میں عمرانی سونامی کی پول کھول دی تھی لیکن کیونکہ اس وقت سوشل میڈیا اتنا پاور فل نہیں تھا اس لئے ان کی بات سنی نہ جاسکی تب چینلز کے سیٹھ مالکان اور اینکروں نے انقلاب کا بغل بجا دیا
آئیے گفتگو شروع کرنے سے پہلے لنڈے کے دانشوروں کا حدوداربعہ بتا دیں یہ وہ پڑھی لکھی مخلوق ہے جو سارا دن کام کرتی ہے حق حلال کی روٹی کماتی ہے زیادہ تر اپنی زندگی میں کامیاب ہیں اچھے خاصے پیسے کما رہے ہیں اچھی خاصی نوکریاں کررہے ہیں جو بچ جاتے ہیں اپنے چھوٹے موٹے کاروبار سے منسلک ہیں کسی میڈیا ہاوس سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے کسی سیاسی جماعت کی Payroll پر کام نہیں کرتے ان کا ایجنڈا صرف اور صرف پاکستان ہے کیونکہ بیشتر کا جینا مرنا پاکستان میں ہے جو بچارے مجبوری سے باہر بھی گئے ہیں وہ بھی سارے پیسے اپنے گھر بھیج کر خاندان کی کفالت کرتے ہیں ان کا سب سے بڑا مسلہ یہ ہے کہ یہ پڑھتے بہت ہیں پاکستان کی تاریخ سے اچھی خاصی واقفیت رکھتے ہیں یہی خوبی ان کو اچھا تجزیہ کار 'لنڈے کا دانشور' بناتی ہے آئیے لگے ہاتھوں آپ کو حوالدار اینکروں کا بھی بتا دیں شائد ہی صحافت سے ان کا کوئی تعلق ہے چینلز کے سیٹھ مالکان ان کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے ان سیٹھوں نے بھی صحافت کو پیسے کی مشین بنا دیا ہے یہ تمام اینکر لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہ پر رکھے جاتے ہیں مہنگے سوٹ پہنے centrally heated کمروں میں بیٹھے یہ تجزیہ کرتے ہیں یہ Rent A Anchor کی طرح کام کرتے موٹر سائیکل پر بیٹھے بڑی بڑی گاڑیوں پر چڑھ گئے گاڑیوں پر بیٹھے مرسیڈیز، BMW وغیرہ پر چڑھ گئے کچھ نے تو اتنی ترقی کرلی کہ اپنا جہاز تک خرید لیا ان اینکروں کا کام ہر چھ ماہ بعد انقلاب لانا ہوتا ہے
لنڈے کے دانشور کہتے رہے کہ ایک لاکھ موٹر سائیکل نہیں نکلی لیکن یہ حوالدار قوم کو ایک لاکھ موٹر سائیکل کی نوید سناتے رہے لنڈے کے دانشور کہتے رہے کہ جو لوگ پاکستان اور نوازشریف کی تاریخ سے واقف ہیں ان کو بخوبی پتہ ہے کہ وہ کبھی استعفیٰ نہیں دے گا اگر کنپٹی پر رکھی بندوق بھی اس سے استعفی نہ لے سکی تو یہ کزنز، حوالدار اور انگلی گروپ کیا چیز ہیں لیکن عوام کو بتایا جاتا رہا کہ نوازشریف استعفیٰ لکھ بیٹھا ہے شہباز شریف کی قربانی کا وقت آگیا ہے کس طرح حمزہ شہباز نے تایا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی قربانیاں یاد کروائیں اور مزید قربانیوں سے انکار کردیا کس طرح چوہدری نثار آستین کا سانپ ثابت ہوگا آدھی ن لیگ اپنے قائد سے بغاوت کے لئے تیار بیٹھی ہے لنڈے کے دانشور کہتے رہے کہ یہ سارا ڈرامہ کسی کی ایما پر رچایا جارہا ہے لیکن حوالدار اسے انقلاب اور تبدیلی کا نام دیتے رہے لنڈے کے دانشور کہتے رہے کہ سب ڈرامہ جہموریت کو کمزور کرنے کی سازش ہے اس کا انقلاب سے دور دور تلک کوئی تعلق نہیں لیکن حوالدار کہتے رہے کہ پاکستان کا پڑھا لکھا طبقہ بیدار ہوگیا ہے 'لیکن خدا کی قدرت دیکھیں جاوید ہاشمی کے انکشافات نے حوالداروں کی ہنڈیا بیچ چوراہے میں پھوڑ دی' لنڈے کے دانشور سمجھاتے رہے کہ جو لوگ انقلاب کی تمنا لئے اسلام آباد پہنچے ہیں اصل انقلاب تو ان کے خلاف آنا چائیے لیکن حوالدار ان کو مسیحا کہتے رہے عوام کو طارق بن زیاد کی کشتیاں جلانے والی کہانیاں سنائی جاتی رہیں محمود غزنوی کے حملوں سے خون گرمایا جاتا رہا لیکن لنڈے کے دانشور کہتے رہے کہ یہ سب فراڈ ہے جیسے ہی انگلی والوں کے مقاصد پورے ہوں گے یہ انقلاب جھاگ کی طرح بٹھا دیا جائے گا
ڈی جے بٹ کی دھنوں پر ناچتے تھرکتے نوجوانوں کو انقلابی کہا جاتا رہا چند ہزار لوگوں کو دس لاکھ لوگوں کا کارواں بتایا جاتا رہا لیکن مجال ہے کہ لنڈے کے دانشوروں کا ایمان ڈگمگایا ہو وہ اپنی بات پر قائم رہے کہ نوازشریف استعفیٰ نہیں دے گا اس کو اس دفعہ گرایا بھی نہیں جاسکے گا وہ کہتے رہے اس دفعہ پنجاب بار بار کی فراڈ تبدیلی سے تنگ ہے وہ کبھی اس تبدیلی کو سپورٹ نہیں کرے گا لیکن حوالداروں پر تو ایک جنون سوار تھا شائد ناکامی کی خفت نے بھی آن لیا تھا شائد ان کو دن دگنی رات چوگنی ترقی دینے والوں کا بھی پریشر بھی تھا شائد سیٹھ مالکوں کی اندھا دھند پیسے بنانے کی دھن کا بھی اثر تھا وہ انقلاب کے لئے کوشاں اندھیرے میں ٹکریں مارتے رہے حتکہ قادری دھرنا سمیٹ کر نکل گیا عمران استعفی کے مطالبے سے دوڑ گیا ظلم تو تب ہوا جب عمران نے بھی دھرنا سمیٹ دیا اب جوڈیشل کمیشن کی لالی پاپ چوس رہا ہے لیکن مجال ہے ان لوگوں کو "ذرا شرم آئے اور ذرا حیا آئے" قوم سے معافی ہی مانگ لیں ؟ شائد ہمارے معاشرتی روئے جن میں کرپشن رچ بس گئی ہے انہیں اس بات کی اجازت نہیں دیتے؟
بات یہاں نہیں رکتی یہ لوگ تو اس حد تک چلے گئے ہیں کہ جب انقلاب سے ناامید ہوگئے تو سارا دن ٹی وی پر بیٹھ کر پاکستان کو فیل اسٹیٹ قرار دینے پر تلے رہتے ہیں لنڈے کے دانشور سال بھر سے کہہ رہے کہ پاکستانی اکانامی کی سمت درست ہونا شروع ہوگئی ہے مہنگائی میں کمی آنا شروع ہوگئی fiscal deficit جو کے کسی ملک کی اکانامی میں ریڑھ کی ہڈی کی حثییت رکھتا ہے وہ یہ حکومت نیچے لے آئی ہے Reserve جو صرف چند ارب ڈالر تھے جب حکومت آئی اب سترہ ارب ڈالر کراس کرگئے ہیں حکومت کامیاب اور شفاف privatization شروع کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے revenue میں خاطرخواہ اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے ادارے اپنے پاوں پر کھڑا ہونا شروع ہوگئے ریلوے اسٹیل PIA سب کا خسارہ کم ہوگیا ہے کرپشن کی کہانیاں جو زبان زدعام ہوا کرتی تھیں اب آنا تھم گئی ہیں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں خاطرخواہ کمی کی گئی جبکہ ہمارے ہمسائے ممالک میں ایسا نہیں ہوا لیکن ان لوگوں میں 'کوئی شرم کوئی حیا نہیں' یہ کسی چیز کو ماننے کو تیار ہی نہیں انٹرنیشنل ادارے پاکستانی حکومت کی کارکردگی کو سراہا رہے ریٹنگ ایجنسیاں ریٹنگ میں مثبت تبدیلی لارہی ہیں ڈونر ایجنسیاں اکانامی کے متعلق مثبت رائے دے رہی ہیں لیکن مجال ہے جو ان میں 'ذرا شرم ہو ذرا حیا ہو کچھ decency شو کریں' بس مکروہ ایجنڈے پر قائم ہیں جہموریت ان کو ایک آنکھ نہیں بھاتی ڈکٹیٹر چاہے ریٹائر بھی ہوجائے وہ ان کا مائی باپ ہوتا ہے چاهے وہ ملک کی کھٹیا کھڑی کردے
لیکن یہ ابھرتا ہوا سوشل میڈیا پاکستان کے اس طبقے کو لائم لائٹ میں لے آیا ہے جو سہی معنوں میں عوام کی ترجمانی کرتے ہیں جن کا ایجنڈا صرف اور صرف پاکستان ہے ان جیسے لوگوں کی وجہ سے ایک امید بندھ گئی ہے کہ پاکستان میں جان ہے پاکستان میں بھی لوگ ملک کے لئے سوچ سکتے ہیں؟ انہیں یہ لوگ لنڈے کے دانشور کہتے ہیں آنے والے چند سالوں میں یہ لنڈے کے دانشور اور اہمیت اختیار کرجائیں گے جس تیزی سے لوگ اب سوشل میڈیا کو الیکٹرانک میڈیا پر ترجیح دینا شروع ہوگئے ہیں
نوٹ! اب یہ لنڈے کے دانشور کہہ رہے ہیں کہ کراچی سے ایم کیو ایم اپنی نشست آرام سے جیت جائے گی جبکہ حوالداروں کا ماننا ہے کہ بس انقلاب آنے کو ہے؟
Subscribe to:
Posts (Atom)