آج کل ہمارا ہمسایہ ملک انڈیا عجیب ہیجانی کیفیت کا شکار ہے اس کی وجہ چائنا کے پریذیڈنٹ کا پاکستان کا تاریخی دورہ ہے جس میں پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی سرمایہ کاری کی دستاویز پر دستخط کئے گئے ہیں جو کے لگ بھگ 46 ارب ڈالر پر محیط ہیں یہ اتنی بڑی سرمایہ کاری ہے جس کا حجم پاکستان میں 2008-15 تک ہونے والی سرمایہ کاری سے تین گناہ ہے جبکہ انڈیا میں چائنا کی سرمایہ کاری ایک ارب ڈالر سے بھی کم ہے انڈیا جو گزشتہ کچھ عرصے سے امریکہ کے قریب ہونے پر پھولا نہیں سما رہا تھا اس وقت حیران اور پریشان ہے کیونکہ چائنا جیسی طاقت کا پاکستان پر اس طرح اعتماد کا اظہار پوری دنیا کو سگنل ہے کہ وہ پاکستانی ریاست پر اعتبار کرتا ہے امریکی سینٹر بھی اپنی حکومت پر سخت تنقید کررہے کہ جو کام امریکہ دہائیوں پر محیط امداد سے نہ کرسکا وہ چائنا نے اتنی بڑی انوسٹمنٹ سے کرلیا جو امداد ہمیشہ Do More اور Strings کے ساتھ آتی تھی اس کا انتہائ کم حصہ عوامی منصوبوں پر خرچ ہوا مڈل ایسٹ کے اخبارات میں بھی اداریے چھپ رہے کہ پاکستان اب independent ریاست کی طرف بڑھا رہا جس میں چائنا کے دئے گئے اعتماد نے انتہائی اہم کرادار ادا کیا پاکستان کا مڈل ایسٹ تنازعات سے دور رہنا بھی اسی اعتماد کا اظہار ہے
اب آئیے کہ چائنا اتنی بڑی انوسٹمنٹ کیوں کررہا ہے اس کا جواب بڑا سادہ ہے چائنا کا ٹارگٹ اگلی سپرپاور بننا ہے وہ امریکہ سے زیادہ عقلمند ہے بلکہ یوں کہیے اس نے امریکہ کے تجربات سے سیکھا ہے وہ اکانامی کو اپنا ہتھیار بنا رہا ہے بجائے ملکوں کے ساتھ جنگیں لڑیں جائیں اپنی اور ان کی اکانامی کا بیڑا غرق کیا جائے مثال آپ کے سامنے ہے پیچھلی دہائی میں امریکہ نے افغانستان، عراق میں جنگیں لڑیں پورے مڈل ایسٹ کو میدان جنگ بنا دیا دو ٹریلین ڈالر کا نقصان کرلیا اپنی اکانامی کا بھی بیڑاغرق کرلیا لیکن کچھ حاصل نہ کرسکا اب شرمندگی سے بھاگ رہا ہے اسی دوران چائنا ایک اکنامک پاور ہاوس بن گیا ہے دنیا کی دوسری بڑی طاقت اور اب اس کی نظر اس 'سلک روٹ' پر ہے جو Western China کو دنیا سے جوڑ دے گا یہ 200 بلین ڈالر کا منصوبہ مستقبل میں چائنا کو کھربوں ڈالر واپس کرے گا اس سے چائنا سنٹرل ایشیا سے انرجی لے گا افغانستان کی منرل انڈسڑی کو explore کرے گا مڈل ایسٹ اور یورپین منڈیوں تک رسائی حاصل کرے گا گوادر پورٹ کو اپنی Naval Base کے طور پر استعمال کرے گا اس کی Indian Ocean تک رسائی ممکن ہوگی پاکستان کی خوش قسمتی دیکھئے کہ اس کا سارے روٹ میں کلیدی کردار ہے چائنا نے ہی ہمیں سمجھایا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ ایک سیکیورٹی ریاست سے نکل کر ایک اکنامک پاور ہاوس بنئے Non Interference کی پالیسی اپنائیں Deep State Doctrine کو خدا حافظ کہہ دیں اپنے آپ کو اندر سے مظبوط کریں تو سارے مسائل اپنے آپ حل ہوجائیں گے چائنا اس کی ایک جیتی جاگتی مثال ہے شکر ہے ہمارے ملک میں ایک بزنس فرینڈلی حکومت ہے ایک ایسی سیکیورٹی اسٹیبلیشمنٹ ہے جسے اپنی ماضی کی غلطیوں کا احساس ہونا شروع ہوگیا ہے
پوری دنیا کا پاک چائنا کوریڈور پر حیران ہونا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن پاکستان میڈیا، صحافی حضرات اور سیاستدانوں کا اس پر شور مچانا سمجھ اور عقل سے بالاتر ہے انڈیا کا خطے میں کم ہوتا اثرورسوخ، چائنا کا پاکستان پر اعتماد کا اظہار، امریکہ انڈیا کے گٹھ جوڑ کو اس مہارت سے کاونٹر کرنا، پاکستان میں امریکہ اور مڈل ایسٹ بادشاہوں کا کم ہوتا اثرورسوخ پر کسی جاہل کو ہی اعتراض ہوسکتا ہے؟ آئیے دیکھتے ہیں کہ ہمارے نیم حکیم صحافی نما دانشوروں اور کم عقل سیاستدان کن چیزوں پر اعتراض کررہے ہیں؟
سب سے پہلے تو سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر جھوٹے نقشے پھیلائے جارہے ہیں جن کو پاک چائنا کوریڈور سے نتھی کیا جارہا ہے بے ہنگم قسم کا نقشہ جس میں ایک سڑک کو پنجاب کے مختلف علاقوں سے گزرتے ہوئے دکھایا گیا ہے سارے زور لگا رہے کہ یہ ہے کوریڈور؟ ان سب لوگوں کی عقل کو اکیس توپوں کی سلامی دینا چائیے جنہیں یہ بھی نہیں پتا کہ یہ کوریڈور ایک سڑک کا نام نہیں بلکہ مختلف منصوبوں کا مجموعہ ہے جو اگلے تین سے پندرہ سال میں تین مختلف مراحل میں مکمل ہوگا پہلے مرحلے میں انرجی کے منصوبوں کو کلیدی حثییت دی گئی ہے یعنی اگلے تین سے چار سال میں لگ بھگ سترہ ارب ڈالر کے منصوبوں کو مکمل کیا جائے گا جن سے تقریبا ساڑھے آٹھ ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جائے گی اس کوریڈور کی تین Alignment ہیں جن کا مقصد Western China اور گوادر کو آپس میں ملانا ہے پھر سلک روٹ کے زریعے دنیا سے ملانا ہے ان تین روٹس میں Central ،Western اور Eastern Alignment شامل ہیں اگلے دو سال میں Western Alignment کو مکمل کیا جائے گا جیسا کے چائنیز صدر نے اپنے خطاب میں کہا کہ سلک روٹ کے تمام راستوں کو مکمل کرنا چائنا کی ترجیحات میں شامل ہے لیکن کیونکہ ابھی بلوچستان اور خیبرپختخواہ میں آپریشن چل رہے حکومت پاکستان اتنے بڑے پیمانے پر سیکیورٹی فراہم کرنے سے قاصر ہے اس لئے پہلے تین سال میں انرجی پر بہت زیادہ فوکس کیا گیا نیشنل ہائے وے والی Alignment پر کام کی رفتار کو تیز کیا گیا اس کے لئے حویلیاں موٹروے کا افتتاح کیا گیا جوکے خیبرپختخواہ میں ہے اسی طرح حیدرآباد کراچی موٹروے کا افتتاح کیا گیا جوکے سندھ میں موجود ہے قراقرم ہائی وے پر کام کو تیز کیا جائے گا اسی طرح Western Alignment پر کام بھی شروع ہوگیا ہے جس کے ذریعے گوادر کو بلوچستان کے مختلف حصوں سے ملایا جارہا ہے مختلف highways پر تیزی سے کام ہورہا ہے
اب آئیں دوسرے اعتراض کی طرف کہ تمام منصوبوں کا تعلق ذیادہ تر پنجاب سے ہے جی ہاں جن معاہدوں پر دستخط ہوئے ان میں لاہور اورنج ٹرین لائن اور بہاولپور سولر پارک ایسے منصوبے ہیں جو وزیر اعلی شہبازشریف نے اپنی محنت سے حاصل کئے ان پر کام زرداری صاحب کے دور حکومت سے ہورہا تھا بلکہ بہاولپور سولر پارک میں 100 میگاواٹ کا منصوبہ تو مکمل بھی ہوگیا بقیہ 900 میگاواٹ دسمبر 2016 تک سسٹم میں آجائے گا بجائے اس کے کہ میڈیا اور سیاستدان دوسرے وزیراعلی کی کھچائی کرتے کہ وہ اپنے صوبوں کے لئے اتنا کام کیوں نہیں کررہے؟ آخر کیا وجہ ہے کہ شہبازشریف کام میں سب سے آگے ہے سب کی توپوں کا رخ شہبازشریف کی طرف ہوگیا؟ آئیے صوبائیت پھیلانے والے ان صحافیوں /سیاستدانوں کو بتائیں کہ انرجی کے ان گنت منصوبے دوسرے صوبوں میں بھی ہیں مثلاﹰ تھر کول پراجیکٹ 2×330 میگاواٹ، پورٹ قاسم کول پراجیکٹ 2× 660 میگاواٹ ، 720 میگا واٹ کروٹ Hydro پراجیکٹ، 870 میگاواٹ سکھی کناری پاور پراجیکٹ، 250 میگاواٹ ونڈ انرجی پراجیکٹ سندھ، تھر کول مائنگ پراجیکٹ، گوادر نواب شاہ 500 MMCF ایل این جی پائپ لائن وغیرہ اگر دماغ سے سوچا جائے تو صاف پتہ لگتا کہ انرجی کے زیادہ تر منصوبے پنجاب میں نہیں بلکہ دوسرے صوبوں میں ہیں پنجاب میں ساہیوال انرجی پراجیکٹس شامل ہیں ایک انتہائی اہم MOU پاکستان واپڈا اور CTGPC کے درمیان سائن ہوا جو Indus River کی Hydro Potential پر کیا گیا اس دریا پر تقریباﹰ پچیس ہزار میگاواٹ کے منصوبے لگیں گے یہ خیبرپختخواہ کی عوام کی قسمت بدل دے گا کیونکہ اس کے حتمی معاہدے میں ابھی کچھ وقت درکار ہے یہ پراجیکٹ پاک چائنا کوریڈور کا حصہ نہیں ہے
اب آئیے ایک ایسا اعتراض جس پر ہنسی بھی آتی ہے اور رونا بھی آتا ہے کہ کول انرجی کے پراجیکٹس خدانخواستہ پاکستان کے ماحول کو آلودہ کردیں گے ایسی ایسی بیماریاں پھیلائیں گے کہ شائد ہی کوئی زنده بچ پائے گا بلکہ کچھ نے تو کہا کہ اگر آپ اس علاقے سے گزر بھی گئے تو آپ کی گاڑی اور شکل بالکل کوئلے جیسی ہوجائے گی یقین مانیں میں مذاق نہیں کررہا ہوں..... دنیا کا ترقی یافتہ ملک امریکہ اپنی بجلی کا تقریباﹰ 48-49% کول انرجی سے حاصل کررہا ہے اسی طرح ابھرتی ہوئی سپرپاور چائنا اپنی بجلی کا 49-51% کول انرجی سے حاصل کرتا آپ کا پڑوسی بھارت تقریباﹰ 52-53% بجلی کول سے حاصل کرتا دوسرا آرگومنٹ کہ پاکستان ماحول کو آلودہ کردے گا بھی دقیانوسی اور فرسودہ ہے پاکستان کا دنیا کو آلودہ کرنے میں حصہ ناہونے کے برابر ہے جبکہ دنیا کے چند ایک شہر اکیلے ہمارے پورے ملک سے زیادہ آلودگی پھیلاتے ہیں یہ وہی اعتراض ہے جو امریکہ اور دوسرے ملکوں نے اٹھایا تھا جب پاکستان کو جام شورو کول انرجی پراجیکٹ کے لئے 1.2 بلین ڈالر لون دیا گیا تھا انٹرنیشل ڈونر ایجنسیز نے یہ اعتراض مسترد کردئیے تھے
کچھ لوگ تو یہاں تک چلے گئے جب کہا گیا کہ چائنا کا صدر تو آہی نہیں رہا یہ سب قرضے ہیں ان کا FDI سے کوئی تعلق نہیں ہے یہ حکمران قوم سے جھوٹ بول رہے ہیں انہیں گمراہ کررہے ہیں اب چائنا کا صدر آیا بھی اور تمام معاہدے کرکے بھی چلا گیا سب نے دیکھا کہ یہ ساری انوسٹمنٹ تھی ان میں قرضوں کا کوئی عنصر شامل نہ تھا سب سے بڑی بات ان معاہدوں کے ساتھ کوئی strings اور do more والا قصہ نہیں بلکہ یہ تمام معاہدے برابری کی سطح پر کئے گئے ہیں اب بات سمجھنے کی یہ ہے کہ جن معاہدوں کو دنیا Game Changer کہہ رہی ہے دنیا کا تمام میڈیا ششدر اور حیران ہے وہاں ہمارے کچھ ناسمجھ سیاستدان، اینکر اور دانشور انہیں Controversial بنانے پر کیوں تلے ہوئے ہیں؟ تنقید کریں لیکن اتنی بھونڈی مت کریں کہ بندہ سر پکڑ کر بیٹھ جائے؟ یہ اپوزیشن کا کام ہے کہ ان منصوبوں کی راکھی کرے کہ یہ سب وقت پر مکمل ہوں حکومت کوئی کرپشن نہ کرسکے ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ یہ منصوبہ زرادری صاحب کا تھا اس کا سارا کریڈٹ نوازشریف حکومت لے گئی جی اس کا پہلے MOU پر دستخط 2011 میں ہوئے لیکن اس منصوبے کا پہلا نقشہ پلاننگ کمیشن نے 2013 میں تیار کیا جس پر میاں نوازشریف اور چائنیز پریذیڈنٹ نے دستخط کئے اس منصوبے کو اتنی تیزی سے مکمل کرنے کا سہرا پرائم منسٹر نوازشریف، احسن اقبال، شہبازشریف، بیوروکریسی اور ان تمام منسلک اداروں کو جاتا ہے جنہوں نے دن رات محنت کی وہ بیوروکریسی جس کے بارے مشہور ہے کہ اب کسی کام کی نہیں رہی یہ معجزہ کردکھایا یہ زرادری صاحب کی بدقسمتی رہی کہ ان کے پاس اچھی ٹیم موجود نہ تھی
پاکستان کی GDP اس وقت 237-245 ارب ڈالر کے درمیان ہے اگر یہ تمام منصوبے وقت پر مکمل ہوگئے تو ایک انقلاب آجائے گا کیونکہ یہ سارے وہ منصوبے ہیں جن سے روزگار کے لاکھوں مواقع پیدا ہوں گے اس انوسٹمنٹ سے دوسرے ملکوں کا بھی حوصلہ بڑھے گا کہ پاکستان انوسٹمنٹ کے لئے ایک Safe Destination ہے اس انوسٹمنٹ کا حجم آپ کے ملک میں پیچھلے سات سال میں آنی والی انوسٹمنٹ سے تین گناہ ہے لاہور اسلام آباد موٹروے تقریباﹰ 30 ارب کی لاگت سے مکمل ہوئی تھی آج انٹرنیشل اداروں نے اس کی مالیت کا تخمینہ تقریبا 240 ارب لگایا ہے ذرا سوچئے کہ ان منصوبوں کی مالیت آنے والے دس سالوں میں کیا ہوگی اور پاکستانی GDP کا حجم کہاں پہنچ جائے گا
No comments:
Post a Comment