Friday 17 October 2014

اور جہموری نظام جیت گیا

پاکستان پیھچلے دو ماہ سے ہیجان کی کیفیت کا شکار ہے یہ سلسلہ چودہ اگست کو شروع ہوا جب عمران خان جو کہ جنرل الیکشن میں 7.6 Million ووٹ لے چکے ہیں نے یہ ٹھانی کہ مجھے علامہ طاہرالقادری، چوہدری برادران، شیخ رشید وغیرہ کے ساتھ مل کر موجودہ نظام کو گرانا ہے اس کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اب تو پاکستان کے بچے بچے کی زبان پر لندن پلان اور انگلی گروپ کے چرچے ہیں حتکہ تحریک انصاف کے ہارڈ کور ووٹر بھی کنفیوژن کا شکار ہیں اس مارچ کا مقصد تو یہ تھا کہ وزیراعظم سے استعفی لیا جائے گا اس گلے سڑے نظام سے چھٹکارا حاصل کیا جائے گا کپتان صاحب نے کنٹینر پر کھڑے ہوکر شائد ہی کسی ادارے پر الزام نہ لگایا ہو ہر کسی کو controversial بنایا گیا خود کو ایک مسیحا کے طور پر پیش کیا گیا نوازشریف کی پندرہ مہینے کی حکومت کو حسن مبارک کے دہائیوں پر محیط Dictatorial نظام سے ملایا گیا آپ کا ساتھ دینے والے ہر اس بندے کو صاف شفاف کہا گیا چاہے وہ اس سسٹم کا سب سے بڑا beneficiary ہی کیوں نہ رہا ہو

سب کچھ تیار تھا میڈیا پر بغل بج چکا تھا اس حکومت کا جانا ٹہر گیا تھا انگلی اٹھنے کی نوید سنادی گئی تھی جب سارے میڈیا چینلز نے کنٹینر پر کھڑے جاوید ہاشمی کو آپ کے کان میں سرگوشیاں کرتے دکھایا لیکن آپ نے ان کو لفٹ نہ کروائی اور وزیراعظم ہاوس فتح کرنے چل پڑے اگلے چند دنوں میں جاوید ہاشمی نے میڈیا پر آکر لندن پلان اور اس ساری سازش کا بھانڈا پھوڑ دیا اس مہم جوئی کا حصہ بننے سے انکار کردیا پارلیمنٹ جاکر تقریر کی آپ کی خواہش کے مطابق استعفی پیش کیا اور عوامی عدالت میں جانے کا اعلان کردیا لیکن اس سارے کھیل میں کہیں نہ کہیں وہ اس پارلیمنٹ اور جہموری سسٹم کو بچا گیا

آنے والے چند ہفتوں نے اس کو سچا ثابت کیا آپ کے دھرنے فلاپ ہوگئے اور آپ کو جلسے جلوسوں کا راستہ اختیار کرنا پڑا یہاں تک کہ اس نے آپ اور آپ کی پارٹی پر اتنا پریشر بلڈ کردیا کہ آپ کو ملتان کے ضمنی الیکشن میں اس گلے سڑے نظام کا حصہ رہے عامر ڈوگر جیسے بندے کی حمائت کرنا پڑی بلکہ اس کو ہرانے کے لئے ملتان میں ایک عظیم الشان جلسہ کرنا پڑا جاوید ہاشمی کا گھر سے نکلنا مشکل کردیا گیا جہاں وہ گیا آپ کے ٹائیگرز نے اس کا پیچھا کیا اور اس کو جتنا زلیل کرسکتے تھے کیا لیکن وہ میدان چھوڑ کر نہیں بھاگا بلکہ یہاں تک کہ ساری انتخابی مہم گھر میں پریس کانفرنس کرکے کرنا پڑی میڈیا نے جاوید ہاشمی کے خلاف مہم میں اپنا حصہ نہایت احسن طریقے سے ڈالا پھر مسلم لیگ کے لوکل جھگڑوں سے بھی اس کو نقصان ہوا مسلم لیگی لیڈرشپ آپ کی حمائت کا اعلان کرنے کے باوجود بھی ملتان میں آپ کی مدد کو نہ پہنچی البتہ لوکل لیڈرشپ نے آخری چند دن تمام جھگڑوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کھل کر آپ کی سپورٹ کی وہیں سے حالات نے پلٹا کھایا اور آپ گھر سے نکلے اپنی کمپین بھرپور طریقے سے چلائی لیکن آپ سے ناراض مسلم لیگی ووٹر شہر کے پولنگ اسٹیشن سے آپ کو جتانے کے لئے نہ نکلا حکومتی پرفارمنس بھی آڑھے آگئی لیکن سب چھوڑئیے حقیقت تو یہ ہے اس ضمنی الیکشن نے آپ کو بھی بری طرح ایکسپوز کردیا حکومتی ووٹر کی حکومت سے ناراضگی تو سمجھ آتی ہے کہ وہ اپنی حکومت کی کارکردگی سے خوش نہیں ہے لیکن آپ کی وہ تبدیلی کہاں گئی؟ وہ لاکھوں لوگ جو جلسے میں آئے تھے وہ کہاں گئے؟ جنرل الیکشن میں آپ نے اس سیٹ سے 83k ووٹ لئے تھے جو کم ہو کر 52k رہ گئے باوجود دو مہینوں کے دھرنوں، شہر شہر جلسوں، پرائم ٹائم میڈیا کوریج جو دو مہینوں سے آپ انجوائے کررہے ہیں؟

اگر آپ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ جاوید ہاشمی ہار کر بھی اس جہموری سسٹم کی بہت بڑی خدمت کرگیا بلکہ اس کی ہار نے اس سسٹم کو زیادہ تقویت بخشی جو کہ اس کی جیت کی صورت میں ممکن نہ ہوسکتی آپ بھی سوچتے ہوں گے کہ کیسا ظالم آدمی ہے کہ ایک بیمار شخص کی ہار پر خوش ہورہا ہے ؟ نہیں ایسی بات بالکل بھی نہیں ہے پیچھلے دو مہینوں سے عمران خان اینڈ کمپنی نے جو argument build کیا ہے وہ یہ ہے کہ یہ سسٹم ایک گلا سڑا بدبودار ہے جو کسی کو انصاف نہیں دے سکتا گزشتہ الیکشن فراڈ اور دھاندلی زدہ الیکشن تھے نوازشریف اتنا پاورفل آدمی ہے کہ اس نے تمام پاکستانی ادارے خرید لئے ہیں لیکن جاوید ہاشمی نے عمران خان اینڈ کمپنی کو اسی سسٹم سے فائدہ لینے والے electable کی خدمات حاصل کرنے پر مجبور کردیا  اسی سسٹم جس کو عمران خان اینڈ کمپنی بوسیدہ اور executive کا تابع کہہ رہے تھے بلکہ یہاں تک کے ان کے سربراہان پر سنگین الزامات بھی لگائے اسی سسٹم کے تحت وہ الیکشن لڑے جس کو وہ کنٹینر پر کھڑے ہوکر ماننے کو تیار نہ تھے ان کا جیتا ہوا امیدوار الیکشن کمیشن کی تعریفیں کرتا نہیں تھک رہا اپنی جیت کے بعد ان کی حمائت کرنے والے پیراشوٹ اینکر اپنے پروگرامز میں مٹھائیاں بانٹ رہے تھے شاہ محمود غزنوی ایک بہت بڑا معرکہ جیتنے کا اعلان کررہے تھے لیکن یہ سب کرتے ہوئے بھول گئے کہ ان کی اس حرکت سے الیکشن کمیشن کی ایک بہت بڑی جیت ہوئی پنجاب حکومت اور وفاقی حکومت بالکل نیوٹرل رہی ورنہ پاکستان کی تاریخ اٹھا لیجئے حکومتی پارٹی کے لئے ایک عدد ضمنی الیکشن اگے پیچھے کرنا کیا مشکل کام ہے؟ سب سے بڑھ کر اسی گلے سڑے بوسیدہ سسٹم نے عمران خان اور ان کی پارٹی کو انصاف دیا اور جنرل الیکشن 2013 کے ٹرینڈ کو بھی ثابت کردیا جب تحریک انصاف اس حلقے سے کامیاب ہوئی تھی بلکہ سہیل وڑائچ کے بقول historical facts بھی ثابت ہوگئے ملتان کے یہ دو شہری حلقے ہمیشہ اپوزیشن جیتی بھٹو صاحب کے دور میں بھی یہی ہوا 2002 میں پیپلز پارٹی جیتی 2008 میں ن لیگ فاتح ٹہری اور 2013 کے انتخابات میں تحریک انصاف نے جیتی
جاوید ہاشمی ہار کر بھی آپ کی سیاست پر سنگین سوالات اٹھا گیا ہے اس کی ہار نے ثابت کیا کہ ووٹ کی طاقت سے ہی سسٹم تبدیل ہوسکتا ہے منظم دھاندلی کرنا اس الیکشن میں ناممکن تھا جس کا ڈھنڈورا آپ کنٹینر پر کھڑے ہوکر پیٹ رہے ہیں ہاں لوکل دھاندلی ممکن ہے جیسے کہ جاوید ہاشمی کے ساتھ کی گئی یا جیسے میڈیا نے جنرل الیکشن سے پہلے آپ کے حق میں کی تھی کیونکہ یہ الیکشن کوئی ڈکٹیٹر بندوق کے زور پر نہیں کروا رہا تھا مشرف ریفرنڈم تو آپ کو یاد ہوگا پھر جب 2002 میں ن لیگ سارا لاہور جیت گئی ساری دنیا نے دیکھا کیسے رزلٹ تبدیل کئے گئے اس ملک نے فاطمہ جناح کے خلاف دھندلی کو بھی دیکھا کیا ہی بہتر ہو کہ آپ اس سے کوئی سبق سیکھیں اور سب کے حال پر رحم کرکے دھرنے ختم کریں اصطلاحات پر زور دیں نئے الیکشن کمشنر کے لئے ایک صاف ستھرا نام تجویز کریں اچھی اپوزیشن کرکے بلدیاتی الیکشن کو یقینی بنائیں الیکشن کمیشن کی اصطلاحات کو یقینی بنائیں لوڈشیڈنگ کے عذاب سے نجات کے لئے حکومت پر دباؤ ڈالیں اداروں میں ایماندار سربراہان کی تعنیاتی یقینی بنائیں ہمارے ملک میں ان گنت مسائل ہیں جو بطور اپوزیشن کی سب سے بڑھی پارٹی ہوتے ہوئے آپ کی نظرکرم کے منتظر ہیں سب سے بڑھ کر KPK میں ایک مثالی حکومت دے کر آپ لوگوں کے دلوں پر راج کرسکتے ہیں  مہاتیر محمد، طیب اردگان وغیرہ سب سسٹم کے اندر رہ کر تبدیلی لے کرآئے خدا کے لئے سسٹم کے اندر سے تبدیلی لائیں ورنہ اب ریاست پاکستان کو بچانا مشکل ہوجائے گا
نوٹ! کل کے انتخاب سے بظاہر ایسا تاثر ابھرا ہے کہ عوام ابھی اس حکومت کو مزید وقت دینے کے موڈ میں ہے لیکن اگر ن لیگ کی طرف سے ہنگامی بنیادوں پر گورنس کو بہتر نہ کیا گیا تو یہ ناراض ووٹر کسی بھی وقت پلٹا کھا سکتا ہے پھر سہی معنوں میں انقلاب آئے گا جس کے آگے بند باندھنا ناممکن ہوگا

No comments:

Post a Comment