Saturday 7 February 2015

میڈیا سرکس

سالوں سے سنتے آرہے ہیں کہ ہمارا میڈیا ابھی ارتقائی مرحلے سے گزر رہا ہے وقت کے ساتھ ساتھ professionalism آتا جائے گا خود بخود اپنا code of conduct بنا لےگا اس پر عمل بھی شروع کردے گا ایسے پروگرام دیکھنا نصیب ہوں گے جن میں بھرپور investigative Journalism کا عنصر نمایا ہوگا جیسا ہمیں اپنے پرنٹ میڈیا میں دیکھنے کو ملتا ہے جہاں ہمیں بھرپور journalism پڑھنے کا موقع ملتا ہے ایسے ایسے اداریے کہ روح خوش ہوجاتی ہے ایسی ایسی شاندار stories کہ فخر محسوس ہوتا ہے پھر آخر کیا وجہ ہے وہی لوگ جب الیکٹرانک میڈیا میں آتے ہیں تو وہ جرنلزم کی جگہ Sensationalism کرنا شروع کردیتے ہیں ؟ شائد اس کی وجہ یہ ہے کہ الیکٹرانک میڈیا پر سیٹھوں کا قبضہ ہوگیا ہے جن کا جرنلزم سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے انہوں نے اسے ایک پیسہ بنانے والی مشین سمجھ لیا ہے شائد اسے لئے ایسے ایسے اینکرز کو پروموٹ کیا جاتا ہے جو صحافت کی الف ب سے ناواقف ہوتے ہیں ایسے ایسے مہمانوں کو مدعو کیا جاتا ہے جن کا جو دل میں آتا ہے وہ بولتے ہیں چاہے حقیقت سے اس کا دور دور تک کوئی تعلق نا ہو انہیں یہ آئیڈیا ہی نہیں کہ وہ لاکھوں لوگوں کا opinion بناتے ییں وہ اس قوم کے ساتھ کیا ظلم کررہے ہیں
 
قصہ مختصر یہ اگر آپ چائنا کے انجینئرز کو مارنے کی صلاحیت رکھتے ہیں تو آپ کے پروگرام کی ریٹنگ آسمانوں کو چھوئے گی اگر آپ دہشتگردوں کے ساتھ لڑتے جوانوں کا لائیو انٹرویو دکھانے میں ایکسپرٹ ہیں تو کیا بات ہے اس میں دہشتگردوں کی تعداد حلیہ حتیٰ کہ اسلحہ کی ساخت تک کے سوال جڑ دئیے جاتے ہیں وہ بچارا جوان پریشان ہوکر کبھی صحافی صاحب کی شکل دیکھتا ہے تو کبھی اپنی قسمت پر ماتم کرتا ہے کہ وہ کہاں پھنس گیا ائرپورٹ حملے کے بعد چوبیس گھنٹے کولڈ اسٹوریج میں پھنسے لوگوں کی چیخوں کی آوازیں سننے کے دعوے کئے جاتے ہیں لوکل انتظامیہ کو مودرالزام ٹہرایا جاتا ہے حالانکہ ان بچاروں کا تو ائرپورٹ جانے کی کلئیرنس ہی نہیں دی جاتی لیکن پوسٹ مارٹم کی رپورٹ میں ان غریب لوگوں کی چیخیں اینکر صاحب کے پہنچنے سے پہلے نکلنے کی تصدیق ہوتی ہے لیکن ان چیخوں نے اینکر صاحب کی ریٹنگ کو چارچاند لگا دئے باقی جائے سب بھاڑ میں !!!
 
بات یہاں نہیں رکتی اگر میرا جی لائیو شو میں آکر بلک بلک کر رو کر اپنے اگلے پیچھلے گناہ معاف کرا لے تو چھپر پھاڑ ریٹنگ ملتی ہے پھر میرا جی کے رونے کی فوٹیج ہر نیوز بلیٹن میں دکھا کر ثواب کمایا جاتا ہے اگر آپ کھرا سچ بولنے کے عادی ہیں پھر تو بس کسی کی خیر نہیں وہاں تو فتوے، نیا پاکستان، ججوں کی عزت اچھالنی، عجیب و غریب من گھڑت کرپشن اسکینڈل، نئے سپہ سالار کی رونمائی الغرض شائد ہی کوئی ایسا کارنامہ ہے جو سرانجام نا دیا گیا ہو
 
چار ماہ تک دھرنا دکھایا جاتا ہے انقلاب کے بگل بجائے جاتے ہیں دن رات ایک ہی قسم کی تقاریر نشر کی جاتی ہیں حب الوطنی کے نام پر کاروبار مملکت کو بند کردیا جاتا ہے کفن پہنے انقلابیوں کو دکھایا جاتا ہے ملک کی عزت اور شان بڑھانے والی عمارتوں پر حملے لائیو ٹیلی کاسٹ کئے جاتے ہیں ایسے ایسے اینکروں کی ان دھرنوں کے دوران رونمائی کی جاتی ہے کہ عقل پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے سائیکل پر بیٹھے صحافی ڈیزائنر سوٹ پہننا شروع ہوگئے بڑی بڑی گاڑیوں کا چسکا لگ گیا لیکن پھر اچانک ایک دن جب دہشتگرد دن دہاڑے پشاور آرمی اسکول میں خون کی ہولی کھیلتے ہیں ہمارے حب الوطنی سے سرشار میڈیا اور اینکروں کو خیال آتا ہے کہ ملک میں تو دہشتگردی کی جنگ چل رہی ہے لاکھوں لوگ خیبرپختواہ کی سڑکوں پر دربدر ہیں پھر وہی اینکر دھرنوں والوں کی ایسی مٹی پلید کرتے ہیں کہ وہ بچارے دھرنے سمیٹنے میں ہی اپنی آفیت سمجھتے ہیں کنٹینر سمیٹ کر گھر کی طرف روانگی کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے انقلاب کو موخر کردیا جاتا ہے ایک بھائی لگے ہاتھوں شادی بھی کرلیتے ہیں ان کی شادی کو اتنے دھوم دھام سے نشر کیا جاتا ہے کہ بچارے کی عزت سربازار نیلام کردی جاتی ہے حالانکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ شادی انتہائ سادگی کے ساتھ کی جاتی ہے اس میں شادی کرنے والے کا کوئی قصور نہیں کہ اسے ریٹنگ کے لئے استعمال کیا گیا
 
پاکستان چائنا کوریڈور پر ایسے ایسے کرپشن کے قصے کہانیاں پیش کی جارہی ہیں کہ بندہ حیران ہوجاتا ہے کہ یہ سارے کاغزات کہاں سے لائے جارہے ہیں ابھی تو ایک روپیہ کی انوسٹمنٹ نہیں ہوئی لیکن کھربوں روپے کی کرپشن کے اسکینڈل سامنے آگئے ہیں یہ صرف اور صرف پاکستانی اینکر اور میڈیا کرسکتا ہے یہ سارے وہی لوگ ہیں جو چائنا کے صدر کا دورہ ملتوی ہونے کا زمہ دار بھی حکومت کو قرار دے رہے تھے کچھ تو اس حد تک چلے گئے کہ یہ دورہ تو ہونا ہی نہیں تھا حکومت فراڈ کررہی تھی اب وہی اینکر کرپشن کے الزامات لگا رہے وہ تو اس بات پر بھی حیران ہیں کہ چائنیز کمپنیوں جن لوگوں اور کمپنیوں کو اپنے profit میں شراکت دار بنا رہی ہیں وہ اصل میں kickbacks ہیں
 
غریب کا تو اتنا خیال ہے کہ بس آپ نا ہی پوچھیں ہر پروگرام کا آغاز مہنگائی کے رونے دھونے سے ہوتا ہے لیکن جب بتایا جائے کہ مہنگائی کی شرع تو سات سال کی کم ترین سطح پر آگئی ہے تو گھسا پٹا جواب آتا ہے کہ اس سے غریب کو کیا فائدہ ہوا؟ بندہ پوچھے کہ کیا مہنگائی کے اشاریے غریب آدمی کے لئے مختلف ہوتے اور امیر آدمی کے لئے مختلف؟ کیا غریب آدمی سبزیاں، دالیں، پھل، پٹرولیم مصنوعات، کرایوں میں کمی وغیرہ سے فائدہ نہیں اٹھاتا؟ بلکہ مہنگائی میں کمی کا اصل فائدہ تو غریب کو ہوتا ہے امیر آدمی کو کیا فرق پڑتا مہنگائی میں کمی ہو یا زیادتی ہو؟ ہمارے اینکر اکنامک ایکسپرٹ بھی ہیں ہر وقت روتے رہتے کہ اکانامی کا بیڑا غرق ہوگیا لیکن جب بتایا جائے کہ سارے انٹرنیشل ادارے کہہ رہے کہ سالوں بعد اکانامی میں بہتری نظر آرہی ہے سب اعشاریوں میں بہتری آرہی ہے تو سب کا ایک ہی جواب کہ غریب بچارا تو پس گیا ہے؟ پچھلے دنوں میں پٹرولیم مصنوعات میں کمی کے بہت چرچے رہے جب حکومت نے پٹرولیم مصنوعات میں خاطرخواہ کمی کرنا شروع کردی تو جواب آیا کہ نہیں ابھی اور کم کرنا چائیے سب کا مشرکہ بیان آیا کہ حکومت کا کوئی کریڈٹ نہیں یہ تو انٹرنیشل مارکیٹ میں کمی آرہی ہے بندہ پوچھے سرکار آپ بجا فرما رہے کہ یہ کمی گلوبل ہے لیکن اکثریت ممالک میں اس کمی کو اپنے budget deficit کو finance کرنے کے لئے استعمال کررہے یا پھر بڑے بڑے پراجیکٹ لگانے کے لئے ایک اینکر کم جعلی ڈاکٹر صاحب نے تو اپنے شو میں قوم کو اس حد تک بتادیا کہ کس طرح حکومت پٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس لگا کر ان کے ساتھ ظلم کررہی ہے لیکن وہ یہ بتانے سے قاصر رہے کہ حکومت کو ان قیمتوں میں کمی کی وجہ سے پچاس ارب روپے کے قریب ریونیو شارٹ فال کا سامنا ہے لیکن centrally heated کمروں میں بیٹھے غریب کی وکالت کا اپنا ہی مزہ ہے رات گیارہ بجے سب چینلرز پر کامیڈی شو شروع ہوجاتے ہیں وہاں بیٹھے بھانڈ اکانامی پر ایسے ایسے لیکچر دیتے کہ ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف وغیرہ بھی شرما جائیں ترقی کے ایسے نسخے تجویز کئے جاتے کہ شائد اکثر یورپی ممالک اپنی ڈوبتی معشیت کو سہارا دینے کے لئے ان کی خدمات حاصل کریں بلکہ قوی امید ہے کہ بارک اوبامہ بھی عنقریب ان صاحبان کو امریکہ آنے کی دعوت دے
 
یہ اینکر اور چینلز بہادر تو اتنے ہیں کہ مت پوچھئے بس کراچی میں بلدیہ ٹاون فیکٹری کی آگ میں زندہ جلنے والے لوگوں کو جلانے والوں کا نام لینے سے ڈرتے ہیں دہشتگرد اور banned تنظیموں کے جلسے جلوس کی لائیو کوریج کرنا اپنا فریضہ سمجھتے ہیں دہشتگردوں کے موقف کو میڈیا پر کیسے پھیلایا جاتا ہے اس میں ان کو خاص مہارت حاصل ہے ان اینکروں اور میڈیا ہاوسز کی ساری بہادری ن لیگ، پی پی پی اور تحریک انصاف جیسی پارٹیوں کی پگڑیاں اچھالنے کے لئے ہے بہادری کا یہ عالم ہے کہ دہشتگردی کا سارا ملبہ سیاستدانوں پر ڈالتے ایک منٹ نہیں لگاتے لیکن اصل حقائق بیان کرتے جان نکل جاتی ہے سیکرٹ رپورٹس سے چیدہ چیدہ اقتباس ان تک کیسے پہنچتا ہے یہ بھی ایک معمہ ہے چند ایک کا نالج تو اتنا ہے کہ مختلف وزرا کے قلم دان کا بھی نہیں پتہ ہوتا بس جوش خطابت میں ان کی مٹی پلید شروع کردیتے ہیں
 
قصہ مختصر یہ ہے کہ جب تک چائنا میں ایک بھی انجئینر بچا ہوا ہے جب تک کھمبوں پر چڑھنے والے عاشق موجود ہیں اسلام آباد کی سڑکوں پر دھرنا میلہ سجتا رہے گا اسلام آباد کی سڑکوں پر شور مچاتا سلطان راہی میسر ہوگا میرا جی جیسی گناہ گار عورتیں اپنے گناہوں کی معافی مانگنے کے لئے تیار ہیں اپنے حریف چینل پر فتویٰ دینے کے لئے مولوی دستیاب ہیں سیٹھوں کا چینلوں پر قبضہ ہے اپنی بولی لگوانے والے اینکر موجود ہیں چینل بند ہونے کے ڈر سے میڈیا سیاسی جماعتوں کے Militant Wing کا نام لینے سے ڈرتا رہے گا اس وقت تک ہم سب کو صبر و شکر کے ساتھ اس "میڈیا سرکس" کو برداشت کرنا پڑے گا یا پھر کسی معجزے کا انتظار کرنا پڑے گا جب دیگر اداروں کی طرح یہ بھی خودبخود بغیر کسی محنت اور پڑھائی لکھائی کے ٹھیک ہوجائیں

1 comment: